مجھے ڈاکٹر طاہر القادری کے 2012ء کے دھرنے کا ایک منظر بہت بھلا محسوس ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کینیڈا سے واپس آ کر انقلاب کا نعرہ لگایا، پوری گھن گرج کے ساتھ اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کو چیلنج کیا اور اس کا ’’پھلکا‘‘ اُڑانے کیلئے لانگ مارچ کی صورت میں لاہور سے اسلام آباد کا رخت سفر باندھا۔ بالآخر ان کا پڑائو ڈی چوک اسلام آباد میں ہوا جہاں انواع و اقسام سے مزین ان کا کنٹینر پہلے ہی پہنچا دیا گیا تھا۔ حکومت نے انکے اس دھرنے میں کسی قسم کا رخنہ نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا چنانچہ وہ عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کے جلو میں حکومت کو نو نقد سناتے ہوئے خوب چوکڑیاں بھرتے رہے۔ اس وقت بھی اشارہ کبھی کبھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہو جاتا تھا مگر ان کی جانب سے بھی سسٹم کو چلانا مقصود تھا اس لیے علامہ صاحب کو دال گلتی نظر نہ آئی البتہ کینیڈا سے کشید کر کے لائے گئے اپنے انقلاب کی لاج رکھنے کی خاطر دھرنا برقرار رکھنا انہوں نے اپنی مجبوری بنا لیا جبکہ حکومت نے بھی طے کر لیا کہ ڈاکٹر صاحب کھیل تماشہ جاری رکھیں، ہماری صحت پر بھلا اس کا کیا اثر پڑے گا۔
اسی شغل میلے میں ایک دن وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے چار پانچ وزراء کا ’’لشکر‘‘ لے کر علامہ طاہر القادری کے کنٹینر میں آدھمکے۔ اس دوران علامہ صاحب اور وفاقی وزراء کے مابین ہونے والے ڈائیلاگ پوری قوم نے ٹی وی چینلز کے ذریعے سُنے اور انکے ممکنہ نتائج کا بھی اپنے تئیں اندازہ لگا لیا۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم یقیناً علامہ صاحب کا دل بہلانے کیلئے ہی آئی تھی اس لیے اس کھیل تماشے میں علامہ صاحب جو مطالبہ بھی داغتے اس پر وزراء کی جانب سے سرتسلیم خم ہو جاتا۔ پھر ایک تحریری معاہدہ بھی طے پا گیا جس پر فریقین کے دستخط ثبت ہونے کے بعد علامہ صاحب نے اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور پھر کینیڈا واپس چلے گئے، لانگ مارچ اور دھرنے کے اسی تجربے نے بعدازاں 2014ء میں عمران خاں کو بھی حکومت مخالف احتجاج کا یہ راستہ دکھایا کہ میڈیا کی فعالیت میں یہ ’’کارخیر‘‘ کمپنی کی مشہوری کیلئے بہت سودمند ہو سکتا تھا۔ علامہ طاہر القادری نے بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے حکومت گرانے کے ایک ہی کاز کیلئے اپنے الگ لانگ مارچ اور دھرنے کا اہتمام کیا اور پھر ان دونوں کا پڑائو ڈی چوک اسلام آباد میں ایک دوسرے سے متصل مقامات پر ہوا۔ علامہ صاحب نے تو دھرنے کے مقام پر قبریں بھی کھدوا لیں اور اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو زچ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسکے برعکس عمران خاں کا دھرنا دن کو ویران ہوتا اور رات کو میلے ٹھیلے میں بدل جاتا۔ علامہ صاحب مستقل طور پر کنٹینر میں ہی موجود رہے مگر عمران خاں دن کا زیادہ حصہ بنی گالہ میں اپنی اقامت گاہ پر گزارتے اور رات کو قائد دھرنا بن جاتے۔ علامہ طاہر القادری کو اس وقت بھی یقیناً کسی اشارے پر دھرنا سمیٹ کر اپنے ملک کینیڈا واپس لوٹنا پڑا مگر عمران خاں ہٹ کے پکے تھے اس لیے انہوں نے دھرنا برقرار رکھا۔ اس دھرنے کے دوران جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے -16 دسمبر 2014ء کو سانحۂ اے پی ایس پشاور کے باعث اپنا دھرنا 126 دن بعد ختم کرنے کا اعلان کیا مگر حکومت مخالف احتجاجی تحریک برقرار رکھی جو بالآخر اسلام آباد کے لاک ڈائون تک جا پہنچی۔
یقیناً مسلم لیگ (ن) نے بھی دھرنا سیاست سے عہدہ براء ہونے کیلئے جمہوریت کی عملداری و تسلسل کو پیش نظر رکھا اور پارلیمنٹ میں موجود دوسری جماعتوں بشمول اپوزیشن کو ساتھ ملا کر دھرنوں والوں کو فری ہینڈ دینے کی پالیسی اختیار کی سو جمہوریت امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کے ’’دل خوش کن‘‘ اعلانات کے باوجود نہ صرف بچ گئی بلکہ آج تک رواں دواں بھی ہے اور موجودہ حکمران پی ٹی آئی اسی بچائی گئی جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ مجھے ہرگز یہ توقع نہیں کہ وزیر اعظم عمران خاں اور ان کی حکومتی پارٹی جمہوریت کو نقصان پہنچانے والا کوئی قدم اُٹھانے کی سوچ رکھتی ہو گی، اس لیے مجھے اس وقت بہت اطمینان ہوا تھا جب وزیر اعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا دینے کے اعلان کے بعد پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر انہیں اس دھرنے کیلئے کنٹینر فراہم کرنے اور شرکائے دھرنا کو کھانا فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ دھرنے کے کھیل تماشہ سے عہدۂ براہء ہونے کیلئے یقیناً ایسی ہی پالیسی کارگر ہو سکتی ہے۔ آخر آنکھ کی کوئی شرم اور حیا بھی ہوتی ہے۔ کوئی مہمان اپنے مہربان میزبان کو آنکھیں نہیں دکھاتا۔ حضرت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنے دونوں دھرنے سمیٹنے کیلئے آنکھ کی اسی شرم کی پاسداری کی تھی اور کیا خیال ہے؟ اگر مولانا فضل الرحمان کو بھی وزیر اعظم عمران خاں کے اعلان کیمطابق اسلام آباد میں دھرنے کی سہولت د یکر کنٹینر اور شرکائے دھرنا کیلئے کھانا فراہم کر دیا جائے تو ان کی آنکھ کی شرم انہیں ہتھ ہولا رکھنے کا سوچنے پر مجبور نہیں کرے گی؟
جناب۔ آپ یہ پالیسی آزما کر تو دیکھتے مگر یہ کس جلد باز کی رائے آپکی سوچ پر غالب آ گئی ہے کہ آزادی مارچ اور دھرنے والوں سے نمٹنے کیلئے آپ نے خود ہی اسلام آباد اور ملک کے صوبائی دارالحکومتوں کو لاک ڈائون کرنے کی پالیسی طے کر لی ہے۔ ارے صاحب۔ ذرا سوچئے، اسلام آباد آنے والی ملک کی تمام شاہراہیں آپ کنٹینر اور خاردار تاریں لگوا کر بند کر رہے ہیں اور پھر اسلام آباد کی دوسری گزر گاہوں کو خندقیں کھود کر بند کرنے کا اہتمام ہو رہا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ چاک و چوبند اسلام آباد پولیس نے جڑواں شہروں کے تمام کیٹررز کو ایک گشتی مراسلہ بھجوا کر پابند کر دیا ہے کہ وہ دھرنے والوں کو تنبو، قناتیں، کرسیاں ، سٹیج اور پانی تک فراہم نہیں کرینگے۔ یقیناً خوراک کا کاروبار کرنیوالے تاجروں دکانداروں کو بھی اس مراسلے کے تحت پابند کیا گیا ہو گا کہ وہ دھرنے والوں کو کافر اور ملک دشمن سمجھیں اور انہیں کسی بھی قسم کی خوراک ہرگز فراہم نہ کریں۔
میرے لیے تو آج اطمینان کی یہ بات سامنے آئی تھی کہ وزیر اعظم عمران خاں نے مولانا فضل الرحمان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں آزادی مارچ کی اجازت دے دی ہے۔ آئین کے تحت صادر ہونے والے اس فیصلے کی بنیاد پر تو آزادی مارچ والوں کو اسلام آباد میں یا کسی بھی دوسرے مقام پر اجتماع کرنے اور باالفاظ دگر دھرنا دینے سے بھی نہیں روکا جا سکتا تاآنکہ اس اجتماع یا دھرنے سے کسی خلفشار یا خانہ جنگی کی فضا پیدا نہ ہو جائے۔ ا گر اسلام آباد پولیس اس وقت بھی آزادی مارچ سے نمٹنے کیلئے شہر میں چھ سو کنٹینر لگانے کی تیاریاں کر رہی ہے تو اس سے اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی کے آئینی حق اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کی کیسے پاسداری ہو پائے گی اور پھر تھوڑا سا تصور باندھئے کہ ملک کی سڑکیں کنٹینروں سے بند کرنے اور پورے اسلام آباد کو خندقیں کھود کر محصور کرنے کے عام پبلک اور علاقہ کے مکینوں کی سوچوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ حضور آپ مارچ اور دھرنا سیاست کو کھیل تماشہ ہی سمجھیں اور اسی انداز میں اس سیاست کا توڑ کریں۔ ریاستی جبر والے راستے اختیار کر کے کہیں آپ جمہوریت کو نہ توڑ بیٹھیں، اب کی بار جمہوریت ٹوٹی تو پھر آپ کو دل بہلانے کے لئے کوئی کھلونا دستیاب نہیں ہو گا۔