کم از کم میری عقل و فہم تو یہ بات تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ جس حکومت کو غربت، مہنگائی اور روٹی روزگار کے گھمبیر ہوتے عوامی مسائل کی بنیاد پر پہلے ہی سخت عوامی ردعمل کا سامنا ہو اور اپوزیشن جماعتیں انہی عوامی مسائل پر پیدا ہونے والے اضطراب کو اپنے حق میں کیش کرانے کے لیے لانگ مارچ اور دھرنے جیسی تحریکوں کے لیے صف بندی کر رہی ہوں۔ وہ حکومت اپنے لیے پیدا ہونے والی اس مشکل صورت حال میں بھی بے نیازی یا خوداعتمادی کے تحت عوام کو روٹی اور روزگار سے محروم کرنے پر منتج ہونے والی اپنی پالیسیوں کی ہی وکالت کرتی رہے۔ بالخصوص وہ حکومت تو ایسی پالیسیوں کو اعلانیہ عملی جامہ پہنانے کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی جو سابق ادوار حکومت میں غربت، مہنگائی، روٹی روزگار کے گھمبیر ہوتے مسائل سے عوام کی گلو خلاصی کرانے اور ریاست مدینہ جیسی اسلامی فلاحی مملکت تشکیل دینے کے دعوئوں، وعدوں، منشور اور ایجنڈہ کے تحت عوام کی ہمدردیاں حاصل کر کے اقتدار میں آئی ہو۔ مگر اس کو کیا کہا جائے۔ ناطقہ سربگریباں ہونے کا حوالہ دیا جائے تو اس سے طبع نازک پہ گراں گزرنے کی نوبت آ سکتی ہے مگر جناب! آپ تلخ زمینی حقائق کو کب تک نظرانداز کئے رکھ سکتے ہیں۔ نئے پاکستان کے اقتدار کے ایک سال کے دوران غربت، مہنگائی اور روٹی روزگار کے بڑھتے مسائل پر عوام کو ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والی شاہانہ پالیسیوں نے جتنا زچ کیا ہے۔ اس پر اپوزیشن کو تو اپنی سیاست چمکانے کا نادر موقع ملا سو ملا ہے‘ خود حکومتی صفوں میں بھی مایوسی اور کھلبلی کی کیفیت نظر آتی ہے۔ جس کی صدائے بازگشت وزیر اعظم عمران خاں کی زیر صدارت منعقد ہونے والے وفاقی کابینہ کے گزشتہ اجلاسوں میں بھی سنی گئی ہے اور حکومتی ترجمانوں کے اجلاسوں میں بھی ان گھمبیر مسائل کی بنیاد پر عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہونے کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔
ابھی چند ماہ قبل ہی وفاقی وزیر فیصل وائوڈا نے پورے فخر و انبساط کے ساتھ قوم کو یہ خوش خبری سنائی تھی کہ حکومتی اقتصادی پالیسیوں کے نتیجہ میں ملک میں ملازمتوں کا سیلاب آنے والا ہے مگر اس خوش خبری کے عملی قالب میں ڈھلنے کی اب تک نوبت نہیں آ سکی۔ اس کے برعکس وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے یہ کہہ کر مایوس عوام کے ذہنوں پر ہتھوڑے برسانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ حکومت تو اپنے چار سو سرکاری محکمے بھی بند کر رہی ہے۔ اس سے لوگوں کو روزگار دینے کی ہرگز توقع نہ رکھی جائے۔ روزگار دینا حکومت کا کام نہیں۔ حکومت نے تو اس کے لیے محض حالات سازگار بنانے ہوتے ہیں۔ ملازمتیں نجی سیکٹر میں ہی ملیں گی، حضور یہ سوچ کس کے ذہن رسا میں در آئی ہے؟وزیر اعظم عمران خاں نے تو ایک کروڑ پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے اور نچلے طبقے کے عوام کے لیے پچاس لاکھ گھر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا جبکہ ایسی اعلان کردہ حکومتی پالیسیوں کی بنیاد پر ہی نئے پاکستان میں ’’سٹیٹس کو‘‘ والے سابقہ حکمرانوں کے لتّے لیے جاتے رہے ہیں اور عمران خاں کی کرشماتی شخصیت کے ساتھ عوام کا رومانٹسزم ایسے دل خوش نعروں کی بنیاد پر ہی پرورش پاتا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ضمنی میزانیوں اور قومی بجٹ میں لاگو کئے گئے نئے ٹیکسوں اور مروجہ ٹیکسوں میں اضافہ کیساتھ ساتھ بجلی‘ پانی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بتدریج اضافہ کرنے اور پاکستانی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں بے وقعت بنانے سے بھی عوام کے غربت‘ مہنگائی کے بڑھتے مسائل نے ان کے رومانٹسزم میں نقب لگائی اور اب تو چودھری فواد نے اس رومانٹسزم کی رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے جو ملازمتوں کے حصول کیلئے پریشان حال بیروزگاروں کو نجی سیکٹر کی جانب دھکیلنے کی پالیسی وضع کئے بیٹھے ہیں جبکہ نجی سیکٹر والے پہلے ہی تیل‘ گیس‘ بجلی کے آئے روز بڑھتے نرخوں‘ ایف بی آر‘ نیب اوردوسرے حکومتی انتظامی اداروں کی سختیوں سے عاجز آکر اپنے کاروبار ٹھپ کر رہے ہیں جنہیں اپنے مستقبل کیلئے بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ اس لئے محض تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ جن نجی کاروباری‘ صنعتی اداروں پر پہلے ہی ہو کا عالم ہے اور وہاں سے بیروزگار ہونے والے لوگوں کی کھیپ کی کھیپ باہر نکل رہی ہے‘ وہ ہمارے دانشور وزیر مکرم فواد چودھری کے عوام کو نجی سیکٹر میں روزگار فراہم کرنے والے ارشادات کو اپنے لئے حرز جاں بنا لیں گے۔
ارے آپ تو ہنستے بستے انسانی معاشرے کو جہنم زار میں تبدیل کرنے کے اسباب پیدا کر رہے ہیں۔ اس وقت بیروزگاری کے سیل رواں نے پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے روزگار کے دروازے بند ہونے کے باعث جس معاشرتی گراوٹ کا ماحول بنا دیا ہے‘ وہ کسی مہذب ڈسپلنڈ معاشرے کی ہرگز عکاسی نہیں کر رہا کیونکہ روزگار کے حوالے سے اپنے مستقبل سے مایوس ہونے والے نوجوان ہی نہیں‘ ان کے خاندانوں کے دوسرے افراد بھی خودکو کمزور سمجھ کر بھیک مانگنے اور چھینا جھپٹی کی سکت رکھنے والے راہزنی‘ چوری‘ ڈکیتی اور قتل و غارت گری جیسے قبیح جرائم کے راستے اختیار کر رہے ہیں۔ جو زیادہ مایوس ہیں وہ خودکشی اور خودسوزی میں اپنی عافیت سمجھ رہے ہیں۔ پچھلے دنوں آئی جی پولیس سندھ کلیم امام میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ملک کے اقتصادی حالات پر خود بھی بے بسی کی تصویر بن گئے اور یہ کہہ کر سسٹم کو کچوکا لگایا کہ جب میری اپنی بیوی اور ساس بھی راہزنی کی وارداتوں کی زد میں آرہی ہو تو اس سے گھر میں ہونے والی میری سبکی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول بڑھتی ہوئی بیروزگاری ہی ایسے قبیح معاشرتی جرائم کا باعث بن رہی ہے۔
عوام میں ایسے حالات کاردعمل کیا سامنے آیا‘ اس کا اندازہ فتح شاہ کے اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں ڈکیتی کی بڑھتی وارداتوں پر احتجاج کرنے والے علاقے کے لوگوں نے مفاہمت کیلئے آنے والے پولیس سب انسپکٹر اشرف کی بھی ٹھکائی کر دی جسے عوامی تشدد کی زد میں آتا دیکھ کر اس کے ساتھی پولیس اہلکار رفوچکر ہو گئے۔ حضور والا‘ بیروزگاری اسی طرح بڑھتی گئی توعوامی ردعمل کے ایسے واقعات جا بجا نظر آئیں گے جن میں کس کی پگڑی اور دستار اچھلے گی اور انسانی خون کی ندیاں بہنے میں کن کن جسموں کی معاونت حاصل ہوگی۔ آپ بس تصور میں لایئے‘ آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ حضور! آئین پاکستان کی دفعات 25 سے 38 تک کا ان کی شقوں سمیت مطالعہ فرما لیجئے۔ کیا ان دفعات میں شہریوں کی تمام بنیادی ضروریات بشمول تعلیم‘ صحت اور روزگار بلا امتیاز پوری کرنا ریاست کی ذمہ داری نہیں گردانی گئی اور آپ ایک دانشور قانون دان ہوکر بھی عوام کو یہ لیکچر دے رہے ہیں کہ ملازمتیں فراہم کرنا حکومت کا کام نہیں۔ آپ کی محض آگاہی کیلئے گزشتہ دنوں شائع ہونے والی ایک خبر کا حوالہ دے رہا ہوں کہ صرف ایک حکومتی محکمے لیسکو میں 1148 خالی اسامیوں کا اشتہار شائع ہونے پر ایک لاکھ 25 ہزار بے روزگار نوجوانوں نے اپنی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ اگر تمام حکومتی محکموں میں خالی اسامیوں پر جمع ہونے والی درخواستوں کا حساب لگایا جائے تو اس سے بے روزگاری کے سرعت کے ساتھ پھیلتے ناسور سے ہمارے معاشرے کی مستقبل قریب کی گرائوٹوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اور آپ تو حضوروالا عوام میں مزید مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ اس پر کیا عوامی ردعمل سامنے آئے گا خود ہی تھوڑا سا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے لیجئے۔
’’ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔‘‘