انڈہ پہلے یا مرغی
Feb 22, 2018

یہ تو انڈہ پہلے یا مرغی والا ہی سوال ہے۔ آپ پانی میں مدھانی ڈال کر اسے بلوتے جائیں، رات دن ایک کر دیں، بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک پہنچ جائیں۔ انڈہ پہلے یا مرغی کے سوال کا آپ کو تشفی بخش جواب نہیں مل پائے گا۔ آج اسی طرح سرپٹھول ہو رہی ہے۔ آئین نے پارلیمنٹ کو بالادست بنایا ہے یا سپریم کورٹ کو؟ محترم عدلیہ کے قائد نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ قانون ساز ادارہ ہونے کے ناطے پارلیمنٹ کو فوقیت حاصل ہے اور عدلیہ اس کے قانون سازی کے اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی مگر اگلے ہی روز انہوں نے پارلیمنٹ کی برتری کے حوالے سے یہ کہہ کر انڈہ پہلے یا مرغی جیسا سوال پھر اٹھا دیا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے مگر دستور اس کے اوپر ہے۔ ان کے اس استدلال پر یہ نئی بحث شروع ہو گئی ہے کہ دستور کو بنانے والی بھی تو پارلیمنٹ ہی ہے اس لئے دستور اس کے اوپر کیسے ہو سکتا ہے۔ شائد یہ اپنا بابا اوپر رکھنے والا معاملہ بن گیا ہے۔ اس بحث میں الجھے محترمین کو اپنا بابا اوپر رکھنے والا زبان زدِ عام لطیفہ تو بخوبی یاد ہو گا اس لئے مجھے اس لطیفے کو صراحت کے ساتھ بیان کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں، بس نام ہی کافی ہے، مگر بھلے لوگو، اس بیکار بحث سے حاصل کیا ہونا ہے اس لئے کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ شرمندگی والے فعل میں اپنا بابا اوپر رکھوانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ ماضی میں پارلیمنٹ کے ساتھ کھلواڑ کیسے ہوتا رہا اور کس کس نے کس کے ہاتھوں کرایا، اس کا جائزہ لے کر بھی کیا سبق حاصل کرنے کا موقع نہیں بنا۔

حضور! ایسی مثالی صورتحال کو تو ہم ترس رہے ہیں کہ ریاستی آئینی اداروں کے جو اختیارات اور حدود و قیود آئین میں متعین کر دی گئی ہیں ان میں رہ کر ہی ادارے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہیں۔ اس سے آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور بھی پختہ ہو گا اور جس نظام کو وفاقی پارلیمانی آئین کے تابع کیا گیا ہے اس کی طرف میلی نگاہ سے دیکھنے کی کسی کو جرات بھی نہیں ہو گی۔ اگر آئینی حدود و قیود کی پاسداری ہوتی رہے تو سلطانیٔ جمہور میں جمہور کے مینڈیٹ سے مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے والے جمہوری سلطان کو کبھی مطلق العنان بننے کا موقع نہ ملے۔ آج ایک دوسرے کی جانب انگلی اٹھ رہی ہے تو یہ سلطانیٔ جمہور میں جمہور کا مردہ خراب کرنے کا ہی نتیجہ ہے، اس لئے جمہور کو کسی دوسرے آئینی ادارے کی جانب سے اپنے خراب مردے میں نئی روح پھونکے جانے کا شائبہ بھی گزرتا ہے تو یہی جمہور خود کو ’’راج کرے گا خالصہ‘‘ کے سحر سے باہر نکالنے کے لئے اس آئینی ادارے کے لئے دعا گو ہو جاتی ہے جسے اس کے غربت، مہنگائی، روٹی روزگار اور صحت و تعلیم جیسے بنیادی مسائل حل کرنے کا آئینی مینڈیٹ ہرگز حاصل نہیں ہوتا۔

منتخب ایوان کی عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی کی ایک بڑی مثال میڈیا کے ذریعے آج ہی میرے سامنے آئی ہے۔ راندۂ درگاہ جمہور کو پنجاب اسمبلی کی گزشتہ روز کی کارروائی یا کارگزاری کی خبر پڑھ کر میری طرح ہی جھٹکا لگا ہو گا کہ جمہور کے مینڈیٹ سے جمہور کی نمائندگی کے لئے منتخب ہونے والے اس معزز و مقدس ایوان میں سرکاری و اپوزیشن بنچوں کے تمام ارکان نے یکسو ہو کر اپنے لئے تاحیات پاسپورٹ کی فراہمی کی قرارداد منظور کر لی مگر جب ادویات کے نرخ ہائے بالاکن کے آگے بند باندھنے کے لئے قانون سازی کا معاملہ درپیش ہوا تو اس پر اجلاس کی کارروائی جھٹ پٹ موخر کرکے متعلقہ بل کی منظوری کی نوبت ہی نہ آنے دی گئی، اگر جمہور کے منتخب ایوان میں موجود ان کے نمائندگان جمہور کے ودیعت کردہ اپنے اختیار کی بدولت ’’بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لئے‘‘ کی مثال بنے نظر آئیں گے تو راندۂ درگاہ جمہور کو انڈہ پہلے یا مرغی کی بیکار بحث میں خود کو الجھانے کی بھی کیوں ضرورت محسوس ہو گی، وہ اسی منتخب کردہ پارلیمان کے کرموں کا ’’پھل‘‘ کھاتے اتنی اوتاؤلی ہو گئی ہے کہ آب حیات کا جھاکا دے کر پیش کئے جانے والے زہر کو بھی تریاق سمجھ کر پی جانے کے لئے آمادہ و تیار بیٹھی ہے۔ جمہور کو جہاں سے بھی اپنے گوناں مسائل کے بوجھ سے نکلنے کا کوئی چارہ نظر آئے گا اس کے پپڑیوں جمے مایوس چہرے کا رخ اسی ناخدا کی طرف ہو جائے گا۔ بھئی جمہور کے لئے ایسے پیدا کردہ حالات میں آپ کس اصول، نظرئیے اور فلسفے کی بات کرتے ہیں

مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک اطوار کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی

آپ پارلیمنٹ کے تقدس اور اس کی فوقیت کی بات کرتے ہیں۔ اس کے لئے قیام پاکستان سے اب تک کے واقعات کا جائزہ لے لیجئے۔ منتخب پارلیمنٹ پر شب خون مارنے کی سہولت طالع آزما جرنیلوں کو سب سے پہلے ہمیشہ مفاد پرست سیاستدانوں نے فراہم کی ہے۔ عدلیہ کی آزمائش تو اس شب خونی کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اس حوالے سے عدلیہ کو مطعون کرنے والے ریاکاروں کو اپنی عدالتی سیاسی تاریخ کی کتاب ہاتھ میں رکھنی چاہئے کہ تاریخ کی اسی کتاب میں ملک کی پہلی پارلیمنٹ کو گھر بھجوانے والی گورنر جنرل غلام محمد کی شب خونی کو مغربی پاکستان ہائیکورٹ کی جانب سے باطل قرار دینے کا روشن مثال بنا فیصلہ موجود ہے جو اس وقت کی اسمبلی کے سپیکر ناظم الدین کی دائر کردہ آئینی درخواست پر صادر کیا گیا تھا سپریم کورٹ کے جسٹس محمد منیر نے اس فیصلہ کے خلاف وفاق پاکستان کی دائر کردہ درخواست منظور کرتے ہوئے نظریہ ضرورت کو لاگو کر کے غلام محمد کی شب خون کو آئینی کور فراہم کیا تھا اور یقیناً مفاد پرست سیاستدانوں کی اس شب خونی کے لئے مداح سرائی کو بھانپ کر ہی جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کا سہارا لیا تھا۔

آمروں کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے سلسلہ میں جس عدلیہ کو رگیدا جاتا ہے، اسی عدلیہ نے 1993ء میں صوابدیدی آئینی اختیارات کے تحت گھر بھجوائی گئی 90ء کی اسمبلی اور میاں نواز شریف کی حکومت کو بحال کیا۔ اس وقت شاید یہ سیاسی فلسفہ لاگو ہوا ہو گا کہ سپریم کورٹ کے دس ججوں نے عوام کی عدالت کے فیصلہ کی لاج رکھ لی ہے مگر سپریم کورٹ کی طرف سے رکھی گئی اس لاج کو عوامی مینڈیٹ والوں نے بھلا کتنا سنبھالے رکھا؟ صرف ایک مہینے بعد سپریم کورٹ سے بحال ہونے والے وزیراعظم صاحب نے سپریم کورٹ کی اسی بحال کردہ اسمبلی کو توڑنے کی ایڈوائس اپنے دستخطوں کے ساتھ اسی صدر مملکت کو بھجوا دی جس کے صوابدیدی اختیار کے تحت اس کے ہاتھوں اسمبلی کا ٹوٹنا انہیں گوارا نہیں ہوا تھا۔ اور پھر ’’ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہئے‘‘۔ صدر کو اسمبلی توڑنے کا صوابدیدی اختیار بھی تو اسی پارلیمنٹ نے دیا تھا جس کے فورم پر اس کی آئینی فوقیت تسلیم کرانے کیلئے اسی فورم میں بحث کرانے کا شوق چڑھا ہوا ہے۔ آپ تو خود آئین و قانون وضع کرنے والی اس برتر پارلیمنٹ کو اس کے بنائے ہوئے آئین کے تحت ہی توڑنے کا اختیار اس شخص کو سونپ رہے ہیں جس کا براہ راست اس پارلیمنٹ کے معاملات سے کوئی سروکار بھی نہیں ہوتا ہے سوائے اس کے کہ اس نے سال میں ایک بار اس فورم پر آ کر رسمی خطاب کرنا ہوتا ہے۔ اگر صدر کے اس صوابدیدی اختیار پر پہلی زد لگائی تو اسی عدلیہ نے جس کے پانچ فاضل ججوں نے آپ کی دانست میں آپ کے حاصل کردہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کی ہے۔ آپ کو تو آئینی ترمیم کے ذریعے اس صوابدیدی اختیار سے خلاصی پانے کا راستہ بھی اسی سپریم کورٹ نے آپ کی حکومت اور اسمبلی بحال کر کے دکھایا تھا۔ آج آپ اسی سپریم کورٹ کے حوالے سے قوم کو ’’پہلے انڈہ یا مرغی‘‘ کی بیکار بحث میں الجھا رہے ہیں تو جناب بھر پائیے۔ پاکی ٔ داماں کی حکایت بڑھانے سے آپ سے ’’ذرا بند قبا دیکھ‘‘ کا تقاضہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور پھر رہے نام اللہ کا!
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com