باقی اپنی اپنی ”صلیب“ خود اٹھائیں
Jul 30, 2017

مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کرنے والے عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے 20 اپریل کو تین دو کی اکثریت سے فیصلہ صادر کیا اور اس فیصلے کی شروعات بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اختلافی نوٹ سے کی گئی تو مجھے اسی وقت بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ عدالت عظمیٰ کا یہ فل بنچ عدلیہ کی نئی تاریخ مرتب کرنے جارہا ہے۔میں نے تقریباً 30 سال تک ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں مختلف اہم مقدمات کی کوریج کی ہوئی ہے۔ بھٹو مرحوم کے خلاف نواب محمد احمد خاں کے قتل کیس سے سپریم کورٹ کے نظریہ ضرورت والے بیگم نصرت بھٹو کے کیس تک۔ جونیجو حکومت کی برطرفی سے میاں نواز شریف کی پہلی حکومت کی برطرفی تک ۔ جنرل مرزا اسلم بیگ کے خلاف توہین عدالت کے کیس سے اصغر خاں کیس تک اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو کے اسمبلی توڑنے کے اقدام سے حکومتی اقدامات کے خلاف شریف فیملی کی درخواستوں تک اور پھر بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں نیب کے ریفرنسوں کی سماعت تک بے شمار مقدمات کی عدالتی کارروائی اور ان کے فیصلے میری نظروں سے گزرے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف اپیل کا فیصلہ چار تین کی اکثریت سے آیا۔ میاں نوازشریف کی برطرف کی گئی پہلی حکومت کی بحالی کا فیصلہ جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے صرف ایک فاضل جج جسٹس سجاد علی شاہ کے اختلافی نوٹ کے ساتھ صادر کیا اور میں نے کوئی ایک فیصلہ بھی ایسا نہیں دیکھا جس کی شروعات فیصلے میں شامل اختلافی نوٹ کے ساتھ کی گئی ہو۔ پانامہ کیس کا 20اپریل کا فیصلہ سپریم کورٹ کاوہ واحد فیصلہ ہے جس کی شروعات ہی اختلافی نوٹ کے ساتھ کی گئی اور فیصلے کے آخر میں متعلقہ بنچ کے تین فاضل ججوں کا اکثریتی فیصلہ صادر ہوا چنانچہ نئی عدالتی تاریخ کی بنیاد تو 20 اپریل کو ہی رکھ دی گئی تھی۔

پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بے لاگ ریمارکس اور اس کیس میں صادر کئے جانے والے فاضل بنچ کے مجوزہ فیصلہ کے بارے میں ان کے اس اعلان سے بھی مختلف آئینی اور قانونی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئی تھیں کہ عدالت کا یہ فیصلہ کم ازکم 20سال تک یاد رکھا جائے گا۔ ان چہ میگوئیوں میں ایک شگوفہ یہ بھی زیرگردش رہا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ شاید نوازشریف حکومت کی بحالی سے متعلق اپنے سسر جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کے فیصلہ کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں مگر ان ساری چہ میگوئیوں کے باوجود میری آج بھی یہ رائے برقرار ہے کہ عدالتی فیصلے ہر صورت آئین اور قانون کے تقاضوں‘ کیس کے میرٹ اور عدالت کے سامنے پیش کی گئی شہادتوں اور دستاویزات کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں۔ فاضل ججز بے شک ایک انسان ہونے کے ناطے سارے جذبات اپنے دل میں رکھتے ہیں مگر قانون بہرصورت جذبات سے عاری ہونے کے ناطے اندھا ہوتا ہے جس کے تحت صادر ہونیوالے فیصلوں میں بھی نفرت و محبت والے انسانی جذبات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ پھر بھی پانامہ کیس کے حوالے سے جس نوعیت کی عدالتی کارروائی کا میں نے مشاہدہ کیا ہے وہ بلاشبہ عدالتی تاریخ کی منفرد کارروائی ہے۔ 20 سال بعد عدالت عظمیٰ کا کوئی بنچ شاید نئی عدالتی تاریخ کی بنیاد رکھے گا جس کی پیشن گوئی بھی عدالت عظمیٰ کے فاضل سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کردی ہوئی ہے۔ سردست تو پانامہ کیس کی سماعت کرنے والے عدالت عظمیٰ کے فاضل بنچ کی کارروائی ہی آئینی، قانونی اور عدالتی حلقوں کو ملے جلے جذبات والی حیرت میں مبتلا کئے ہوئے ہے کیونکہ اس میں بنچ کی تشکیل سے عدالتی کارروائی تک بے شمار انہونی اور منفرد مثالیں قائم کی گئی ہیں۔ اگر بعض آئینی اور قانونی حلقے یہ سوچ کر حیران ہیں کہ انہوں نے تو عدالتی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوتے دیکھا تو انہیں خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ ایسا ہوتا ہوا بھی اب عدالتی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ اب اس سے بھی آگے کا کوئی معاملہ عدالتی تاریخ میں رونما ہوگا تو اس وقت نئی عدالتی تاریخ مرتب ہوگی۔ فی الحال تو موجودہ نئی عدالتی تاریخ ہمارے سامنے ہے جس میں ایک منفرد کام یہ بھی کیا گیا ہے کہ پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد بھی اسی بنچ کو برقرار رکھا گیا۔ اکثریتی فیصلہ صادر کرنے والے اس بنچ کے تین فاضل ججوں پر مشتمل ایک نیا بنچ تشکیل دے کر اسے پانامہ کیس عملدرآمد بنچ کا نام دے دیا گیا جس نے اپنے فیصلہ کے تحت تشکیل پانے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی کارروائی کی نگرانی اور اس کی ہر دو ہفتے بعد پیش ہونے والی رپورٹ کی جانچ پڑتال کی اور پھر اس کی حتمی رپورٹ پر عدالتی کارروائی کے تحت فریقین کا موقف سنا اور اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا مگر جب محفوظ فیصلہ صادر ہونے کا وقت آیا تو پانامہ کیس کی سماعت کرنے والا عدالت عظمیٰ کا پانچ رکنی بنچ ہی بحال ہوگیا جبکہ اس بنچ کے دو فاضل جج عملدرآمد بنچ کی کارروائی کا سرے سے حصہ ہی نہیں بنے تھے۔ بعض آئینی اور قانونی حلقے اسی تناظر میں حیران و ششدر ہیں کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ جن فاضل ججوں کے سامنے ہی نہیں آئی اور انہوں نے عملدرآمد بنچ کی کارروائی میں حصہ ہی نہیں لیا وہ فیصلہ صادر کرنے والے بنچ کا حصہ کیسے بن گئے۔ آئین اور قانون کی کسی شق اور عدالتی قواعد و ضوابط میں تو کہیں ایسی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ پھر عدالتی تاریخ کا یہ منفرد واقعہ ہی قرار پائے گا جو یقینا کم ازکم 20سال تک تو یاد رہے گا۔
اسی تناظر میں جسٹس وجیہہ الدین احمد، جسٹس ناصرہ جاوید اقبال اور بعض دوسرے آئینی و قانونی ماہرین کا یہ خیال سامنے آیا تھا کہ پانچ رکنی بنچ کی جانب سے پانامہ کیس کا فیصلہ صادر ہونے کے باوجود پانامہ کیس اور اس کی سماعت کرنے والا بنچ ختم نہیں ہوا بلکہ عملدرآمد بنچ کی کارروائی اسی کیس اور اس کا فیصلہ صادر کرنے والے پانچ رکنی بنچ کا ہی تسلسل ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا ہے؟ اس کی نظیر کسی دوسرے کیس میں موجود نہیں۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا عدالتی تجربہ بھی یہی گواہی دے رہا ہے کہ 20 اپریل کو پانامہ کیس کا فیصلہ صادر کرنے والا بنچ اپنی کارروائی مکمل کرکے تحلیل ہوچکا ہے اس لئے اختلافی نوٹ لکھنے والے دو فاضل ارکان پانامہ کیس عملدرآمد بنچ کا حصہ نہیں بن سکتے۔پھر کیا نئی عدالتی تاریخ آئین و قانون سے ماورا ہوکر مرتب کی گئی ہے۔ مجھے کیس کے میرٹ پر کوئی شک و شبہ نہیں مگر اس کیس کی سماعت کے لئے عدالتی کارروائی کے حوالے سے قائم ہونے والی نئی مثالیں میرے ذہنِ رسا میں سما ہی نہیں پارہیں۔ میرے دیرینہ دوست استقلال پارٹی کے سربراہ سید منظور علی گیلانی ایڈووکیٹ نے تو دو ٹوک اس رائے کا اظہار کردیا ہے کہ پانامہ کیس میں عدالتی سیاست کی گئی ہے اور قانون سازی والے پارلیمنٹ کے اختیارات بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے گئے ہیں۔ اسی طرح میرے پنجاب یونیورسٹی لاءکالج والے کلاس فیلو اور نامور قانون دان راجہ ذوالقرنین پانامہ کیس کی کارروائی کے بارے چبھتے سوالات کا پلندہ اٹھائے نظر آرہے ہیں۔ مروجہ عدالتی اصولوں کے مطابق کسی کیس کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد اس کے نقائص و محاسن پر بے لاگ تبصرہ کیا جاسکتا ہے جو توہین عدالت کی پکڑ میں نہیں آتا۔ چنانچہ میں نے یہ سطور لکھتے ہوئے اسی دستیاب سہولت کا سہارا لیا ہے مگر سید منظور علی گیلانی ایڈووکیٹ اور راجہ ذوالقرنین ایڈووکیٹ کے اٹھائے گئے سوالات دہرانے کا مجھ میں یارا ہے نہ ہمت۔ وہ اپنی اپنی ”صلیب“ خود ہی اٹھائے رکھیں تو بہتر ہوگا۔ مجھے تو پانامہ کیس کی کارروائی اور اس فیصلہ کے ذریعے مرتب ہونے والی نئی عدالتی تاریخ سے امید کی یہ کرن ضرور نظر آئی ہے کہ اس کیس کی بنیاد پر اب عمران خان، مولانا فضل الرحمان، شیخ رشید، آصف علی زرداری، سید خورشید شاہ، جہانگیر ترین سمیت قوم کی نمائندگی کرنے والے ہر قومی سیاسی لیڈر، رکن اسمبلی و سینٹ، ہر سول اور فوجی بیوروکریٹ اور اپنی ”منجھی تھلے ڈانگ“ پھیرتے ہوئے عدلیہ کے ہر فاضل رکن کے صادق اور امین ہونے کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے گا اور آئین کی دفعہ 62(1)F کے ساتھ ساتھ عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 12(2)F کی عملداری قوم کی ان ساری معزز ہستیوں پر بھی اسی طرح لاگو کی جائے گی جس طرح میاں نوازشریف اور ان کے خاندان پر لاگو کی گئی ہے۔ اگر پانامہ کیس کی کارروائی اور اس کے فیصلہ کا یہی مطمع¿ نظر ہے تو پھر ہمیں ڈاکٹر طاہرالقادری سے انقلاب اور عمران خان سے نئے پاکستان کا فلسفہ مستعار لینے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ پانامہ کیس کے فیصلہ کی صورت میں ایک امرت دھارا ہمیں دستیاب ہوگیا ہے جس کا جادو کم ازکم اگلے 20 سال تک تو سر چڑھ کر بولتا رہے گا۔ سردست اس پر ہی اکتفا کریں۔ 20سال بعد جو ہوگا، دیکھا جائے گا۔
٭٭٭٭٭
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com