اب کے عید کیا گزری ہے، بس شبِ غم ہی گزر گئی ہے۔ پہلے انسانیت کے دشمن سفاک دہشت گردوں نے عید سے دو روز قبل کوئٹہ، پاراچنار اور کراچی میں دو اڑھائی سو بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیل کر عید کی خوشیاں لہولہان کیں۔ ان میں سے ایک سو کے قریب بے گناہوں کی روحیں خدا کی بارگاہ میں شکوہ سنج ہوئیں اور باقی زخمیوں کے گھروں اور گردونواح میں بھی سوگ کی کیفیت طاری رہی اور اپنی کیفیت یہ بن گئی کہ گزر رہا ہے عجب کش مکش میں دیدہ و دل۔ اور پھر عید سے ایک روز قبل احمدپور شرقیہ میں تو گویا قیامت ہی ٹوٹ پڑی۔ آئل ٹینکر فرشتۂ اجل بن کر آیا اور تین ساڑھے تین سو انسانی جانوں کو پلک جھپکتے میں خاکستر کرکے ان میں سے ڈیڑھ سو افراد کی ارواح کی ’’پَنڈ‘‘ اُٹھائے بارگاہ ایزدی میں جا پہنچا۔ قائد کے پاکستان کی یہ تصویر دیکھ کر دل کرب سے پکار اُٹھا کہ
بابا تیرے دیس چہ خلقت جیوندے جی پئی مردی اے
عید مبارک کہہ نہیں سکدے کھلریاں ہویاں لاشاں نال
احمدپور شرقیہ کے سانحہ نے سوشل میڈیا پر بے لگاموں کو اپنی ذہنی پراگندگیوں کے اظہار کیلئے گویا چارہ مہیا کر دیا۔ ان سفاکوں نے خوب دل کے پھپھولے نکالے اور دکھی انسانیت کو شرمانے کا خوب موقع فراہم کیا اور پھر جوابی دلیلیں اور منطقیں۔ کیفیت ایسی بن گئی کہ
پہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
ہم ایسے سفاک کیونکر ہو گئے ہیں کہ ہولناک انسانی المیوں پر بھی مرے ہوؤں کے لواحقین کے جذبات سے کھیلنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ ایسے کئی سفاکوں کو اپنے گھروں سے برتن، لوٹے، بالٹیاں، کنستر اٹھائے ٹینکر سے رِستا پٹرول خیرات میں لینے کے لئے آنے والے افراد قزاقوں کے روپ میں نظر آئے اور وہ قیامت کا منظر بنانے والی آگ میں کوئلہ بنی ان انسانوں کی لاشوں پر بھی تبرے مارتے رہے۔ کئی سفاک اس انسانی المیہ میں حکمران اشرافیہ طبقات کے پیداکردہ کرپشن کلچر کو کھینچ کھینچ کر بیچ چوراہے میں لاتے لتاڑتے نظر آئے اور کئی سفاکوں کے لئے تو یہ انسانی المیہ گویا تفریح طبع کا ذریعہ بن گیا۔ اس سوشل میڈیا نے تو فاسد مادے سے پیدا ہونے والے انسانوں کے ذہنی گند کا تعفن پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بے شک آئل ٹینکر سے اُبلتے پٹرول پر خلقت ٹوٹی پڑی دیکھ کر راہگیروں کے دل بھی للچائے اور وہ اپنی گاڑیاں، موٹرسائیکلیں کھڑی کرکے بوتلیں اُٹھائے مفت ہاتھ آیا پٹرول لینے چل پڑے اور پھر فرشتۂ اجل نے ان سب کو بس ایک ہی جھٹکے میں زندہ انسانوں سے کوئلہ بنی لاشوں میں تبدیل کر دیا۔ ایسے کئی شوقین حضرات اپنی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے ساتھ اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور سفاک انسانی معاشرے میں ایک المیہ بن گئے مگر مضافات سے بالٹیاں، برتن اٹھا کر مفت ہاتھ آیا پٹرول لینے کے لئے آنے والے مردوخواتین، جوانوں، بزرگوں میں سے غالب اکثریت کے کیا دلوں میں جھانک کر کبھی کسی نے دیکھا ہو گا۔ ان کے گھروں میں ڈیرے ڈالے بیٹھی غربت کا کیا کسی نے کن اکھیوں سے بھی مشاہدہ کیا ہوگا۔ حضرت علیؓ کا یہ قول بھلا کسی کو کہاں ذہن نشین ہوا ہو گا کہ اگر کوئی فرد بھوک سے عاجز آ کر چوری کرتا ہے تو ہاتھ اس کے نہیں بلکہ اس کے حکمران کے کاٹے جانے چاہئیں۔ سو آئل ٹینکر سے اُبلتے پٹرول کی ’’لوٹ مار‘‘ میں شامل ہونے کے لئے آنے والے، مضافات کے لوگوں کی غالب اکثریت انہی افراد پر مشتمل تھی جو اپنے گھروں میں ناچنے والی غربت کو سہلانے کے لئے اور اپنے خاندانوں کے لئے دو نوالوں کا وسیلہ بنانے کی خاطر داعی اجل کو لبیک کہنے آن پہنچے تھے۔ اب آپ جو مرضی تحقیق و تفتیش کر لیں، جنہوں نے اس ناگہانی سانحہ میں لقمۂ اجل بننا تھا وہ اپنے سارے کرب سمیٹے اس دارِ فانی سے کوچ کر چکے ہیں جنہیں سوشل میڈیا پر بننے والی کہانیوں کا اب کوئی علم ہو گا اور نہ اپنے حکمرانوں کی جانب سے بعداز مرگ ملنے والی طفل تسلیوں سے اطمینان قلب کا کوئی اہتمام ہوتا نظر آ رہا ہو گا۔ شہباز شریف صاحب اپنا خادمِ پنجاب والا درد دل میں بسائے وقوعہ کے بعد ضرور احمدپور شرقیہ میں سوگواروں کے ساتھ آن بیٹھے اور انہوں نے اچھا کیا کہ احمدپور شرقیہ ہی میں مقیم ہو کر اگلے روز انہوں نے نمازِ عید بھی سوگواروں کے ساتھ ہی ادا کی۔ زخمیوں کی عیادت بھی کی، متاثرہ خاندانوں کو پُرسہ بھی دیا اور پھر وزیراعظم نواز شریف بھی اپنی لندن کی مصروفیات سمیٹ کر پاکستان واپس آ گئے اور سیدھے احمدپور شرقیہ جا پہنچے۔ اپوزیشن والے ان کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہوئے ہیں۔ غالباً اسی دباؤ میں وزیراعظم کو لندن سے احمدپور شرقیہ کے متاثرین کے پاس آنا پڑا مگر جیسے بھی ہوا، حکمرانوں کی جانب سے دکھی انسانیت کیلئے ان کے زخموں پر پھاہے رکھنے کا اہتمام تو ہو گیا، ان کی ڈھارس بندھا نے کی کوئی سبیل تو نکل آئی۔ وزیراعظم نے اپنے برادر خورد وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ بیٹھ کر سانحہ احمدپور شرقیہ پر حکام کی بریفنگ میں شرکت کی اور وہیں پر میڈیا سے بھی مخاطب ہوئے۔ میاں شہباز شریف پہلے ہی اس سانحہ کے شہداء کے لواحقین کو 20 لاکھ روپے فی کس اور زخمیوں کیلئے دس دس لاکھ روپے کی گرانٹ کا اعلان کر چکے تھے۔ وزیراعظم نے بھی بطور خاص اس گرانٹ کا تذکرہ کیا اور پھر زخمیوں کی عیادت کے وقت پیدا ہونے والے جذبات بھی میڈیا کے ساتھ شیئر کئے۔ ایک زخمی تو وزیراعظم کا فین تھا جس کی وزیراعظم کے بقول ان کے ساتھ ملاقات کی خواہش اس وقت پوری ہوئی جب اس کے جسم کا 80 فیصد سے زائد حصہ جل چکا ہے اور اس کے زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں۔ چلیں اس فین نے بستر مرگ پر پڑے ہوئے بھی وزیراعظم نواز شریف کو ان کی مقبولیت کی جھلک تو دکھا دی۔ ایک زخمی نے اپنی ایسی ہی حالت میں بستر مرگ پر پڑے ہوئے وزیراعظم سے درخواست کی کہ اسے ملازمت دے کر اس کی بیروزگاری دور کر دی جائے۔ وزیراعظم کے بقول انہوں نے اس سوختہ تن بیروزگار کیلئے بھی اور علاقے کے دوسرے بیروزگاروں کیلئے بھی ملازمتوں کا بندوبست کرنے کی وزیراعلیٰ پنجاب کو ہدایت کر دی ہے۔ چلیں ان کی زندہ درگوری نے حکمرانوں کو جھنجھوڑ کر فلاحی انسانی معاشرے والے ان کے فرائض تو یاد دلا دئیے اور ذرا سوچئے کیا یہی ہمارا معاشرتی المیہ نہیں ہے۔ ہمارے اب تک آنے والے کتنے حکمران ہیں جنہوں نے انسانی فلاحی معاشرے کے تقاضے نبھائے ہوں۔ اگر سانحہ احمدپور شرقیہ کا ایک زخمی بستر مرگ پر پڑے ہوئے بھی اپنے روزگار کی فکرمندی میں مبتلا ہے تو کیا یہی ہمارے ملک اور معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ اور المیہ نہیں ہے کہ ریاست نے اپنے شہریوں کو روزگار جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم کر رکھا ہے۔ یہی ایک مسئلہ ہے جس نے ہمارے معاشرے کو غیرمتوازن بنا کر اس کی بقاء پر سوالیہ نشان لگا دیا ہوا ہے اور جس ملک کے حکمرانوں کو اپنے شہریوں کے ایسے مسائل کا احساس و ادراک نہ ہو وہ اس معاشرے کے سدھار کیلئے بھی کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آئل ٹینکر سے اُبلتے تیل کو مفت ہاتھ آئی دولت سمجھ کر حاصل کرنے کے لئے اپنے گھر کے برتن اُٹھائے آنے والوں کا درحقیقت یہی المیہ تھا کہ ان کے گھروں میں بھوک اور فاقہ کشی نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں گے۔ اگر ہم فی الواقع فلاحی ریاست میں رہ رہے ہوں تو انسانیت کی تحقیر کا باعث بننے والے ایسے واقعات کہیں رونما ہوتے نظر ہی نہ آئیں۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے سانحہ احمدپور شرقیہ کے شہداء اور زخمیوں کے لواحقین کے لئے 20,20 اور دس دس لاکھ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا تو ایک کہانی کا منظر میری آنکھوں کے آگے گھومنے لگا جس میں ایک بچہ اپنے والد کی رسم قل پر اپنی والدہ سے پوچھتا ہے کہ میرا بھائی کب فوت ہو گا۔ والدہ تڑپ کر اس سے پوچھتی ہے کہ تم اپنے بھائی کو بھی کیوں مارنا چاہتے ہو تو بچہ معصومیت سے جواب دیتا ہے کہ بھائی فوت ہو گا تو آج کی طرح مجھے پیٹ بھر کر کھانا تو مل جائے گا۔ یہ محض کہانی نہیں بلکہ اس معاشرے کی حقیقی عکاسی ہے جس میں شہریوں کو روزگار اور زندگی گزارنے کا کوئی دوسرا وسیلہ دستیاب نہ ہونے کے باعث اپنی زندہ درگور حیات کا بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے۔ جس معاشرے میں حکمرانوں کو اپنے شہریوں کی بعداز مرگ کفالت کا خیال آئے وہاں اپنے لواحقین کی کفالت کے لئے ہر زندہ درگور شہری اپنے مرنے کی خواہش کا ہی اظہار کرے گا۔ جیسے والد کی رسم قل پر اس کے بھوکے بیٹے کو پیٹ بھر کر کھانا مل گیا تو وہ اسی طرح پیٹ بھرنے کے لئے اپنے بھائی کے مرنے کا بھی انتظار کرنے لگا۔ پھر ذرا سوچئے کہ سانحہ احمدپور شرقیہ ہمارے لئے کتنے سبق چھوڑ گیا ہے۔ یہ محض ایک عید کے سوگوار گزرنے کی کہانی نہیں ہے۔ خدارا سوختہ لاشوں پر مشق ستم نہ کیجئے۔ حکمرانوں کو جھنجھوڑ کر انہیں فلاحی ریاست والے فرائض کی راہ پر لگائیے۔ پھر کوئی بچہ اپنے والد کی رسم قل پر اپنے بھائی کے مرنے کی خواہش کا اظہار نہیں کرے گا۔