میاں شہباز شریف نے گزرے دن اعلیٰ سرکاری افسران کی ایک تقریب میں جوش خطابت کے مظاہر دکھاتے ہوئے جب یہ اعتراف کیا کہ سیاسی یا فوجی حکومت میں سے کوئی بھی آج تک قوم کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا تو مجھے حکمرانوں سمیت سیاستدانوں کے ایک دوسرے کو رگیدنے والے طرز عمل سے عوام کے نفرین ہونے کی واضح جھلک نظر آنے لگی۔ میاں شہباز شریف کی یہ بات تو سچ ہے کہ سیاستدانوں، جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹس اور اشرافیہ سمیت کسی نے بھی پاکستان سے انصاف نہیں کیا تو پھر یہی سوچ اور ٹھان لیا جائے کہ پاکستان کے ساتھ انصاف کیسے ہونا ہے۔ اگر میاں صاحب اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ایسی باتیں کرتے تو ان کی زبان پر جچ بھی جاتیں مگر انہوں نے اور ان کی پارٹی نے تو خود ایوان اقتدار تک تین تین بار رسائی حاصل کی ہوئی ہے۔ پھر انہوں نے اپنے عرصہ ہائے اقتدار کو تعمیر وطن اور مجبور و بے بس عوام کو زندہ درگور ہونے سے بچانے کے عملی اقدامات اٹھانے کے لئے کیوں استعمال نہ کیا۔ معاف کیجئے۔ سیاستدانوں کی باہمی سر پھٹول کا جو نقشہ پنجاب کے خادم اعلیٰ نے جوش خطابت میں کھینچا ہے، اس میں ان کی حکمران پارٹی کا اپنا بھی حصہ بقدر جثہ موجود ہے۔ اگر آج کہیں آئین کی پاسداری و عملداری، اداروں کے احترام اور بانی پاکستان قائداعظم کے وضع کئے اصولوں کی آبیاری نظر نہیں آ رہی تو اس ”دھر رگڑے“ میں آئین کے رکھوالے حکمران طبقات کا اپنا کردار زیادہ جلوہ گر نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہر کسی نے خود کو احتساب سے بالاتر رکھ کر احتساب کا پہیہ دوسروں بالخصوص اپنے مخالفین کو رگڑا لگوانے کے لئے گھمانے کی خواہش رکھی ہے اس لئے آج تک حقیقی معنوں میں احتساب کی عملداری ہو ہی نہیں پائی۔ آج پانامہ ہنگامہ میں یہی کچھ سامنے آ رہا ہے کہ احتساب کا شکنجہ اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھو تو خود کو بچانے کے لئے مارا ماری کی انتہا کر دو۔ آئین قانون، اداروں سمیت سب کو رگیدتے جاﺅ اور اتنی گرد اڑا دو کہ کوئی بھی دامن اجلا نظر نہ آئے۔
یہ حقیقت ہے کہ آئین و قانون کی عملداری تبھی تسلیم ہو گی جب خود حکمران طبقات اپنے آپ کو آئین و قانون کا پابند بنائیں گے ورنہ تو سب دھوکہ ہے۔ سب ریاکاری ہے جس میں ”سب چلتا ہے“ کا فلسفہ ہی غالب رہے گا۔ میں آج اس بے ضابطگی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو آئین کے رکھوالے سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے دو سال قبل آئین کا مذاق اڑاتے ہوئے روا رکھی گئی اور اب انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چیئرمین سینٹ آئین سے صریحاً روگردانی کی اس بے ضابطگی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سنیٹر نہال ہاشمی کے استعفے کے پس منظر میں سیاست اپنی جگہ اور انہی کے لب و لہجے میں حکمران مسلم لیگ (ن) کے دوسرے ارکان کی جانب سے اداروں کی بھد اڑانے کا اختیار کیا گیا طرز عمل اپنی جگہ حکومتی گورننس اور حکمرانوں سے متقاضی آئین و قانون کی عملداری کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے مگر آئین و قانون ساز اداروں کے سربراہان اپنی اپنی پارٹی کی سیاست کے تابع آئین و قانون کی عملداری سے انحراف کریں گے تو پھر اصلاح احوال کے لئے یقیناً خونیں انقلاب ہی آئے گا۔
گزشتہ روز جب چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے معتوب مسلم لیگی نہال ہاشمی کا استعفیٰ اس رولنگ کے ساتھ واپس کر دیا کہ جب تک کوئی رکن ذاتی طور پر اپنے استعفے کی تصدیق نہ کرے اسے منظور نہیں کیا جا سکتا تو مجھے آئین کی دفعہ 64 آئین کے ایسے منحرفین کو طمانچے مارتی ہوئی نظر آئی۔ آئین سے انحراف والی ایسی ہی حرکت سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اپنی پارٹی پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ارکان کے اپنے سیکرٹریٹ میں ٹنڈر ہوئے استعفے انہیں واپس لوٹا کر کی تھی جس کا اعادہ انہوں نے ایم کیو ایم متحدہ کے ارکان کے پیش کردہ استعفوں کے وقت بھی کیا۔ اور اب چیئرمین سینٹ نے جو اپنے ”زریں اصولوں“ کا اکثر اوقات ڈھنڈورا پیٹتے نظر آئے آتے ہیں، نہال ہاشمی کو اپنے پاﺅں پر دوبارہ کھڑا کرکے آئین کے رکھوالے والے اپنے کردار کو بٹہ لگایا ہے۔ آئین کی دفعہ 64میں کوئی ابہام ہے، نہ ہیر پھیر اور نہ کسی تحقیق کا تقاضہ، آئین کی اس دفعہ نے پارلیمنٹ (قومی اسمبلی اور سینٹ) کے کسی رکن کے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دئیے گئے استعفے میں سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینٹ کا صرف اتنا سا کردار رکھا ہے کہ متعلقہ رکن نے استعفیٰ اپنے ہاﺅس کے کسٹوڈین (سپیکر یا چیئرمین) کے نام پر لکھنا ہوتا ہے اور جیسے ہی وہ اپنا استعفیٰ ٹنڈر کرتا ہے آئین کی دفعہ 64کے تحت وہ اسی وقت منظور تصور ہوتا ہے اور اس کی قومی اسمبلی یا سینٹ کی نشست خالی ہو جاتی ہے۔ اس میں سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینٹ نے اگر کوئی جائزہ لینا ہے تو صرف یہ کہ متعلقہ رکن نے آیا خود اپنا استعفیٰ پیش کیا ہے۔ اگر استعفیٰ متعلقہ رکن کی جانب سے خود ٹنڈر ہوا ثابت ہو جائے تو پھر ایسا کوئی عذر اسے اپنی نشست پر واپس نہیں لوٹا سکتا کہ اس نے کسی کے دباﺅ پر استعفیٰ دیا تھا۔
آئین کی دفعہ 64 کے اس تقاضے کے تحت پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم متحدہ کے ارکان بھی اپنے استعفے خود ٹنڈر کرکے اپنی اسمبلی کی نشستوں سے محروم ہوئے تھے اور نہال ہاشمی بھی اسی بنیاد پر خود استعفیٰ دے کر اپنی سینٹ کی رکنیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ مگر یہ سارے مستعفی ارکان سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کی دھکے شاہی سے قومی اسمبلی اور سینٹ کی نشستوں پر براجمان ہیں جنہیں سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینٹ کی کسی رولنگ یا کسی قانون سازی کے ذریعہ متعلقہ منتخب فورموں کا رکن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آئین کے ان ہر دو رکھوالوں کو یقیناً آئین کے اس تقاضے کا بھی ادراک ہو گا کہ آئین کی کسی شق کے منافی کوئی قانون، ایکٹ یا آرڈیننس وضع یا لاگو نہیں ہو سکتا۔ پھر کسی مستعفی رکن کا استعفیٰ واپس کرنے کی سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینٹ کی کوئی رولنگ آئین کی دفعہ 64 کی موجودگی میں بھلا کیسے لاگو ہو سکتی ہے؟ آج میاں شہباز شریف سیاسی یا فوجی میں سے کسی بھی حکومت کے قوم کی توقعات پر پورا نہ اترنے کا رونا رو رہے ہیں تو آج کے انہی کے دور میں ان کی پارٹی کے سپیکر قومی اسمبلی اور ان کی مخالف پارٹی کے چیئرمین سینٹ کا اپنے اختیارات کے حوالے سے آئین سے صریحاً روگردانی والا طرز عمل کیا سسٹم کی خرابیوں میں حکمران طبقات ہی کے حصہ دار ہونے کی چغلی نہیں کھا رہا۔
نہال ہاشمی کا معاملہ تو اور بھی زیادہ سنجیدہ اور سنگین ہے کہ انہیں ان کی پارٹی کے سربراہ میاں نواز شریف نے سینٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کی ہدایت کی تھی اور ساتھ ہی ان کی پارٹی کی رکنیت بھی معطل کر دی تھی۔ انہوں نے اپنا استعفیٰ واپس لینے کی درخواست دی تو انہوں نے اپنے پارٹی لیڈر کے فیصلہ اور اپنی پارٹی کی پالیسی سے انحراف کیا جس کے بعد ان کے پارٹی لیڈر آئین کی دفعہ 63 اے کی رو سے اس امر کے مجاز ہیں کہ اپنی ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والے نہال ہاشمی کی سینٹ کی نشست خالی قرار دلانے کے لئے چیف الیکشن کمشنر سے رجوع کریں۔
اگر میاں شہباز شریف کو انصاف اور احتساب کی عملداری مقصود ہے جس کے بغیر پاکستان کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکتا تو وہ نہال ہاشمی کے معاملہ میں ہی آئین کی عملداری قائم کرا دیں۔ انہوں نے استعفیٰ واپس لینے کی درخواست میں بھی تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے خود استعفیٰ ٹنڈر کیا ہے۔ چاہے انہوں نے کسی دباﺅ کے تحت ہی استعفیٰ کیوں نہیں دیا، آئین کی دفعہ 64 کے تحت ان کا یہ استعفیٰ ازخود منظور ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود وہ چیئرمین سینٹ کی محض رولنگ کے زور پر خود کو سینٹ کا رکن ظاہر کریں گے تو ایسا کسی ماورائے آئین و قانون معاشرے میں ہی ممکن ہے اور اگر خود حکمران طبقات ماورائے آئین و قانون معاشرے کی بنیاد مستحکم کر رہے ہیں تو پھر تنگ آمد بجنگ آمد کے ذریعے ہی اصلاح احوال ہو پائے گی۔ اگر وزیراعظم نواز شریف اپنی ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والے نہال ہاشمی کے خلاف آئین کی دفعہ 63 اے کا تقاضہ پورا نہیں کرتے تو پھر نہال ہاشمی کی اداروں کے خلاف دھاڑوں کے پیچھے سیاست کی بخوبی سمجھ آ جاتی ہے۔ جبکہ نہال ہاشمی کا یہ کہنا کہ انہوں نے دباﺅ میں آ کر استعفیٰ دیا تھا، اپنے پارٹی لیڈر سے کھلم کھلا بغاوت کے مترادف ہے۔ پارٹی کے ایسے باغیوں سے نمٹنے کے لئے ہی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کی دفعہ 63میں شق الف کا اضافہ کرا کے پارٹی سربراہان کو ”باغیوں“ کی اسمبلی یا سینٹ کی رکنیت ختم کرانے کا اختیار دلوایا گیا ہے۔ اگر نہال ہاشمی کے معاملہ میں میاں نواز شریف اپنا یہ اختیار استعمال نہیں کرتے تو پھر نہال ہاشمی کا سٹیج کیا گیا ڈرامہ باہمی ملی بھگت کے زمرے میں ہی آئے گا جس کی اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ سپریم کورٹ بھی نشاندہی کر رہی ہے۔ تو جناب! اصلاح مقصود ہے تو اس کا آغاز اپنی ذات سے کیجئے۔ آپ کو پھر پاکستان کے ساتھ انصاف نہ کرنے کے تاسف کے اظہار کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔