سوال تو یہی ہے کہ کوئی ملزم بغیر کسی جبر و اکراہ کے خلوص دل کے ساتھ اور رضا کارانہ طور پر اپنے سرزد ہونے والے کسی جرم کا کیونکر اعتراف کرے گا۔ شائد کوئی بھوکا آدمی اپنی بھوک برداشت نہ کرتے ہوئے کسی کی فریج میں سے کھانا چوری کر کے کھانے کے جرم کا رضاکارانہ طور پر اعتراف کر لے مگر عادی چور سے اسے کسی نہ کسی خوف میں مبتلا کئے بغیر سچ اگلوانا عملاً ناممکنات میں شامل ہے۔ حفیظ جالندھری کو اہل ادب سے خود کو شاعر تسلیم کرانے کیلئے بھی بہت زور لگانا پڑا تھا جس کا اعتراف انہوں نے اپنے اس شعر کے ذریعے کیا کہ…
حفیظ اہل ادب کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
ہمارے دوست آصف بھلی کو اس شعر میں لگایا گیا ’’زور‘‘ شائد ناقص نظر آئے اور وہ میری اصلاح کرتے ہوئے مجھے باور کرا دیں کہ حفیظ جالندھری نے تو اس شعر میں ’’اہل ادب‘‘ کی جگہ ’’اہل زباں‘‘ اور ’’بڑے زوروں‘‘ کی جگہ ’’بڑی مشکل‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں، پھر آپ نے اس شعر کا کیوں ناس مارا۔ مجھے ان کا یہ اعتراض بھی سر تسلیم خم ہو گا مگر حقیقت تو یہی ہے کہ حفیظ جالندھری کو اہل زباں یا اہل ادب سے خود کو شاعر تسلیم کرانے کیلئے پتہ پانی کرنا پڑا تھا۔ اس ’’پتہ پانی‘‘ میں انہوں نے اہل زباں یا اہل ادب کو اپنے شعروں کے رگڑے دے دے کر ان سے خود کو بطور شاعر تسلیم کرایا تو یہ ان کی جانب سے اپنے بارے میں کسی سے سچ اگلوانے کیلئے جبر و اکراہ کا ہی ہتھکنڈہ تھا۔ اس طرح تو کسی سے سچ اگلوانے یا کوئی حقیقت تسلیم کرانے کیلئے جبرو اکراہ کا ہتھکنڈہ اختیار کرنا قانون فطرت کے کھاتے میں جا پڑے گا۔ جب ہمارے معاشرے میں سچ کا اظہار سکہ رائج الوقت بن ہی نہیں پایا تو پھر جھوٹ کو سچ سمجھ کر بولنا ہی ہماری سرشت میں شامل ہو گا۔ سو آج یہاں جھوٹ کی ہی عملداری ہے اور یہ تصور کر کے پوری دیدہ دلیری کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ…
جھوٹ کو کیوں جھوٹ جانیں، سچ سمجھ کر بولئیے
جھوٹ سے گر کام چلتا ہو تو، اکثر بولئیے
سپریم کورٹ کے فاضل جج مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ کے سہ رکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے ایک قتل کیس کے مجرم کی بریت کیلئے دائر درخواست کی سماعت کے دوران سچ کو چھپانے والے ہمارے کلچر پر یہ ریمارکس دیتے ہوئے خاصے آزردہ خاطر نظر آئے کہ اسلام کے نام پر بننے والی اسلامی مملکت میں قتل کے مقدمات میں بھی گواہان سچ بولنے کو تیار نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے کہ اللہ کی خاطر سچی گواہی دیں، ان کے یہ ریمارکس تو ایک قسم کا اظہار تاسف نظر آئے کہ ’’معاشرے میں عدل کے قیام کیلئے سچ بولنا ہو گا، سچ نہیں بولا جائے گا تو عدل کیسے قائم ہو گا۔ یہاں تو لوگوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ سچ نہیں بولنا‘‘۔
پھر جناب! جھوٹ کی عملداری والے اس کلچر میں کسی سے جرم کا اعتراف کرانے اور سچ اگلوانے کیلئے پولیس کلچر والی چھترول، ڈنڈہ ڈولی، دبڑ کٹ، رولر پھیری اور اذیت سے دو چار کرنے والے دوسرے حربے اختیار کرنے کے سوا اور کیا چارہ کار رہ جاتا ہے۔ یہاں تو ایسے حربوں کیلئے تھانہ چونا منڈی، شاہی قلعہ کا عقوبت خانہ اور کئی لاٹ صاحبان کے خفیہ نجی ٹارچر سیل موجود ہیں۔ ’’نومولود‘‘ ملزمان تو پولیس تھانوں کی حوالاتوں میں ہی چھوٹی موٹی ٹھوکر پر رام ہو جاتے ہیں اور فرفر سچ بولنے لگتے ہیں۔ اگر بلاخوف و اکراہ سچ بولنا انسانی فطرت میں شامل ہو تو امریکہ جیسے ’’مہذب‘‘ معاشرے کو بھی ’’گوانتانا موبے‘‘ جیسے عقوبت خانے روشناس کرانے کی ضرورت کیوں محسوس ہو۔ اب غالباً چین نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو کسی کے جسم پر فٹ کرنے کے بعد اس کے ہر جھوٹ کا بھانڈا پھوڑ دیتا ہے۔ ایسی کسی ایجاد کو ذہن رسا تسلیم کرنے کو تو ہرگز تیار نہیں کیونکہ یہ تو قانون قدرت میں سیدھی سیدھی مداخلت کے مترادف ہے۔ تو پھر بھی ایسا کوئی آلہ سی پیک کی برکت سے ہماری مارکیٹ میں آ گیا ہے تو اسے بروئے کار لانے میں کیا مضائقہ ہے۔ اس سے جرم کا اعتراف کرانے اور سچ اگلوانے کیلئے ہمارے پولیس کلچر کو آزمانا پڑے گا نہ کسی ’’جے آئی ٹی‘‘ کو کسی ’’معزز‘‘ اور بارسوخ ملزم کو اپنے اختیارات کا احساس دلا کر اسے سچ اگلوانے کی خاطر خوف کی کیفیت سے دو چار کرنا پڑے گا۔ بس آلہ جسم کے ساتھ فٹ کرو اور انصاف کی عملداری کیلئے معاون بننے والا سچ اگلوا لو۔ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا ہو۔
میرا گمان ہے کہ ہم ابھی تک ایسے کسی شاہکار آلے کی پہنچ سے دور ہیں ورنہ ’’پانامہ ہنگامہ‘‘ اور ’’نیوز لیکس‘‘ میں سچ اگلوانے کیلئے اب تک ادارہ جاتی زورا زوری کے ذریعے کئے جانے والے تردد کی نوبت ہی نہ آتی۔ اس زورا زوری میں بے چارے تین معصومین قربانی کے بکرے بن کر قربان گاہ کے سپرد ہو گئے اور اب چوتھا قربانی کا بکرا بھی قابو آ گیا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
سچ پوچھئیے تو مجھے نہال ہاشمی پر ترس آنے لگا ہے۔ انہیں گزشتہ روز ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر گرجتے برستے بلکہ دھاڑتے سنا تو مجھے یہ کوئی مزاحیہ ڈراما فلمایا گیا نظر آیا۔ ایک ایسا ڈرامہ جس میں کسی خان صاحب کو اس کے گھر اور خاندان پر ٹوٹنے والی افتاد ایک ایک کر کے بتائی اور دکھائی جاتی ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ پھر جب اسے انتہائی گلوگیر لہجے میں اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کے فلاں کی تو انہوں نے نسوار بھی چھین لی ہے تو خان صاحب کی آنکھیں بادلوں کی طرح چھم چھم برسنے لگتی ہیں۔ نہال ہاشمی کی آنکھیں نہیں، لہجہ چھم چھم برسا، شائد انہیں کہیں سے یقین دلا دیا گیا تھا کہ خمار چڑھنے کے بعد اب ان کی آنکھیں لال بھی ہو چکی ہیں۔ بس پھر کیا تھا۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو، اپنی زبان درازی کے وہ کرتب دکھائے کہ الحفیظ و الامان۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان پر ہمارے پولیس کلچر کا صرف ایک ہتھکنڈہ آزما لیا جائے تو وہ یہ سچ اگلتے ہوئے ذرہ بھر دیر نہیں لگائیں گے کہ ان کے منہ میں کس کی زبان آگئی تھی جو انہیں چنگھاڑنے اور دھاڑنے پر مجبور کرتی رہی۔ ان کی چنگھاڑ تو یہی تھی کہ ’’تم ہمارے مائی باپ، ہمارے لیڈر کے بیٹے کا احتساب کر رہے ہو اس لئے ہم سے بچ کر بھلا کہاں جائو گے‘‘ جنہیں اس چنگھاڑ کے اصل محرکات کا ادراک ہے وہ یہ سوچ کر حیرت زدہ ہوں گے کہ ’’ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی‘‘؟ نہال ہاشمی نے شہزادے کی جے آئی ٹی میں پیشی اور ان کے ساتھ مبینہ ناروا سلوک پر جو دھاڑ ماری وہ یقیناً بلواسطہ دھاڑ تھی ورنہ ایسی براہ راست دھاڑ پر تو خود بخود ان کے جسم پر چیونٹیاں رینگنے لگتیں۔ ان کی دھاڑ سے کچھ دن پہلے ہی تو سپریم کورٹ نے شہزادے کے جے آئی ٹی پر اعتراضات کی سماعت کرتے ہوئے باور کرایا تھا کہ وہ تفتیش کیلئے پیش ہو رہے ہیں، کہیں پکنک منانے تو نہیں آرہے۔ اگر محض ان کے بیان پر صاد کرنا ہی مقصود ہوتا تو سپریم کورٹ خود یہ فریضہ ادا کر لیتی، جے آئی ٹی کی تشکیل کے بکھیڑے میں کیوں پڑتی۔ اب جے آئی ٹی تفتیش کر رہی ہے تو سچ اگلوانے کیلئے اسے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ تو جناب! اس پر نہال ہاشمی کی دھاڑ کس کیلئے پیغام ہے؟ خود ہی سمجھ جائیے کیونکہ چین کا ایجاد کردہ آلہ یہ سچ اگلوانے کیلئے شائد موثر ثابت نہ ہو۔ پھر ڈنڈہ ڈولی اور رولر پھیری ہو گی یا ’’بالما‘‘ کے منتظر کی عملداری ہو گی تو ’’جو چپ رہے گی زبان خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا‘‘۔ حضور بچئے اس وقت سے جب تخت اچھالے جائیں گے، جب تاج گرائے جائیں گے۔