’’ہور چُوپو‘‘
May 04, 2017

ان دنوں عجیب مخمصے کا شکار ہوں سیاسی، قانونی اور عدالتی منظرناموں میں ہر روز کوئی نہ کوئی اچھوتا اور اچنبھے والا سین بنتا نظر آتا ہے۔ ارادہ باندھتا ہوں کہ اس پر صریر خامہ کا ہنر آزمایا جائے مگر دوسری دفتری مصروفیات میں اس کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔ اس طرح ایسے اچھوتے مناظر کے نمودار اور غائب ہونے کا سلسلہ چل رہا ہے اور انہیں کالم کا موضوع نہ بنا پانے کے باعث ذہنی تنائو میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کالموں کی اشاعت میں طویل وقفہ پڑتا ہے تو قارئین کے استفسارات کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ سو ایک عجیب کشمکش جاری ہے دل و دماغ میں اور کیفیت ایسی بنی ہے کہ…

رسن و دار اِدھر، کاکل و رخسار اُدھر
دل بتا تیرا کدھر جانے کو جی چاہے ہے

اسی کشمکش میں آج نیوز لیکس کے حوالے سے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے اس بیان پر نظر پڑی تو اس پر قلم اٹھانے کا بے ساختہ ارادہ بندھ گیا۔ فرماتے ہیں کہ وزارت داخلہ رواں ہفتے تک نیوز لیکس سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کر دے گی۔
گزشتہ ایک ہفتے سے اس ایشو پر تماشہ لگا ہے اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے جاری کردہ نوٹیفکیشن پر دو اعلیٰ افسران گردن زدنی بھی ہو چکے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل اپنی پیشہ ورانہ حدود و قیود کو تج کر اپنے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے وزیراعظم کے اس ایکشن کو نیوز لیکس انکوائری رپورٹ سے مطابقت نہ رکھنے کا عندیہ دے کر تحکمانہ لہجے میں مسترد بھی کر چکے ہیں جو بذات خود ایک منتخب وزیراعظم کے لئے توہین آمیز صورتحال ہے مگر وزیراعظم کے ایما پر جاری ہونے والے جس حکمنامہ کے تحت وزیراعظم کے خارجہ امور کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفرمیشن افسر رائو تحسین کی گردنوں پر پھندے ڈالے گئے ہیں، وفاقی وزارت داخلہ اسے سرے سے نوٹیفکیشن قرا ر ہی نہیں دے رہی۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے بھی اپنی ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کرکے نہ جانے کس کے لئے پوائنٹ سکور کیا کہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی جانب سے نوٹیفکیشن نہیں بلکہ نیوز لیکس انکوائری رپورٹ پر عملدرآمد کے لئے سفارشات مرتب کی گئی تھیں جن کی روشنی میں وفاقی وزارت داخلہ نے نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے جو ہم باضابطہ طور پر جاری کریں گے۔ اب وزیر قانون پنجاب نے بھی وزارت داخلہ کی جانب سے رواں ہفتے کے دوران باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کرنے کا عندیہ دیا ہے تو ذہن میں سوالات کلبلانے لگے ہیں کہ اگر فواد حسن فواد کے جاری کردہ مراسلہ کی کسی حکمنامے کی نہیں بلکہ محض سفارشات کی حیثیت ہے تو پھر اس مراسلہ کی بنیاد پر جھٹ پٹ طارق فاطمی اور رائو تحسین کے خلاف انضباطی کارروائی کیسے ہو گئی اور انہیں ان کے مناصب سے فارغ کیسے کر دیا گیا۔ کیا یہ سب کچھ محض کھیل تماشے کی طرح ہو رہا ہے اور اس کھیل تماشے میں وزیراعظم کے ماتحت ادارے کے ایک افسر اتنے برافروختہ کیوں ہو گئے ہیں کہ انہیں ’’اس نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہیں‘‘ جیسے الفاظ ٹویٹ کرنا پڑے۔ اگر فواد حسن فواد کا جاری کردہ مراسلہ سرے سے نوٹیفکیشن ہی نہیں ہے تو ’’پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے‘‘ اگر اس مراسلہ کی بنیاد پر ’’ جُرموں وَدّھ سزاواں‘‘ پانے والے وفاقی افسران نے اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور اسے اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے تو اس میں بھی وزیراعظم کے لئے سبکی کا اہتمام ہونے کے باوجود وہ حق بجانب تو ہیں۔ اور یہ کہہ کر دل کی بھڑاس بھی نکال سکتے ہیں کہ…

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

رانا ثناء اللہ کا بیان پڑھ کر مجھے بھی ’’ہور چُوپو‘‘والا ایک لطیفہ بے ساختہ یاد آ گیا۔ ایک جاگیردار مستقبل کے سہانے سپنوں میں کھویا سوچ رہا تھا کہ اس بار موسم کی مناسبت سے کماد کی فصل اس کے لئے فضل ربیّ کے دروازے کھول دے گی، اسی سوچ بچار میں اس کا دھیان اپنی آبادی کے چند شرارتی نوجوانوں کی جانب گیا کہ یہ اس کی بارآور کماد کی فصل کو اجاڑ سکتے ہیں چنانچہ اس نے اپنے مزارعین کو ڈنڈوں، لاٹھیوں سے مسلح کرکے ان شرارتی نوجوانوں کی سرکوبی کے لئے بھجوا دیا۔ مزارعین نے ان شرارتی نوجوانوں کو چن چن کر ان کی گھروں سے نکالا اور سربازار ان کی لتریشن اور ڈنڈوں لاٹھیوں سے دھنائی شروع کر دی۔ مار کھاتے یہ نوجوان اس لئے پریشان ہوئے کہ انہیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ ایک نوجوان نے ہمت کرکے مارنے والوں سے پوچھ ہی لیا کہ جان کی امان پائوں تو بتا دو کہ اسے کس جرم میں مارا جا رہا ہے۔ رعونت بھرا جواب آیا کہ ہمارے جاگیردار صاحب کے کماد کے کھیت اجاڑنے کے جرم میں، نوجوان مزید حیران ہوا کہ ابھی تو کماد کی فصل اگی بھی نہیں، یہ اجڑ کیسے گئی۔ اس نے پھر سوال دہرایا اور پوچھا کہ کماد کا کون سا کھیت اجڑا ہے۔ اس پر اسے پھر رعونت بھرا جواب ملا کہ جس پر ہمارے جاگیردار صاحب نے ابھی کماد کی فصل کاشت کرنی ہے، یہ کہہ کر مزارعین نے شرارتی نوجوانوں پر ’’ہور چُوپو، ہور چُوپو‘‘ کے طعنے دیتے ہوئے ڈنڈوں اور لاٹھیوں کی پھر بارش شروع کر دی۔ شائد رائو تحسین اور فواد حسن فواد کو بھی اسی ’’ہور چُوپو‘‘کی ہی سزا ملی ہے۔ پھر بتائیے جناب! آپ ہی کچھ کہئے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔ اگر وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے جاری کردہ مراسلہ کی نوٹیفکیشن کی حیثیت نہیں بلکہ یہ وزارت داخلہ کو بھجوائی جانے والی سفارشات تھیں جو چودھری نثار علی خاں کے بقول غلطی ہے نوٹیفکیشن کے طور پر میڈیا کو جاری کر دی گئیں تومحض سفارشات کی بنیاد پر دو اعلیٰ سرکاری افسران قربانی کی بھینٹ کیوں چڑھ گئے اور پھر اس ’’غلطی‘‘ کی اب تک وزیراعظم ہائوس کی جانب سے وضاحت کیوں جاری نہیں کی گئی، ایک قومی جریدے نے تو اس بات پر گزشتہ روز اپنے ادارئیے میں فریقین بالخصوص مقتدر ادارے کو ٹوئٹر پیغام کے حوالے سے ہوش و خرد سے کام لینے کی بھی تلقین کی ہے تو اس سارے ہنگامے میں کس کی اور کیا منشاء کارفرما ہوئی ہے۔

آج میں یہ سوال اٹھانے کی بھی اس لئے جرات کر رہا ہوں کہ آج آزادی صحافت کے عالمی دن کے حوالے سے مجھے اپنی جرات رندانہ کافی مضبوط نظر آئی ہے ورنہ میں ’’مسترد کرتے ہیں‘‘ والا جھٹکا برداشت کرنے کی کہاں سکت رکھتا ہوں جناب۔ اس لئے آج گستاخی معاف۔ قوم کو بتا ہی دیجئے کہ نیوز لیکس انکوائری کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر نہ لانے میں کیا حکمت کارفرما تھی جبکہ اس حکمت نے آپ کی ایسی کی تیسی کر دی ہے۔ اگر یہ رپورٹ من و عن قوم کے سامنے پیش کر دی جاتی اور اس کی روشنی میں کارروائی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا تو اس رپورٹ کے مندرجات کے ساتھ آسانی سے موازنہ کیا جا سکتا تھا۔ اگر کارروائی رپورٹ میں موجود سفارشات کی بنیاد پر عمل میں لائی گئی ہوتی تو اس پر بھلا کسی کو سوال اٹھانے کی جرات ہوتی۔ رعونت بھرے انداز میں اس کارروائی کو مسترد کرنے کا پیغام دینا تو دور کی کوڑی ہی نظر آتی۔ مگر اب تو سب کچھ ہو چکا ہے اور ہمارے محترم نصرت جاوید کی زبان میں ازالے کی گنجائش نہ رکھنے والا "Demage" ہو چکا ہے۔ اس کو کیسے سمیٹنا اور سنبھالنا ہے۔ پر نکالنے والوں اور نکلے ہوئے پر کاٹنے کی تمنا رکھنے والوں نے ہی اس بارے میں سوچنا اور کچھ نہ کچھ طے کرنا ہے۔ ہمیں ایسے بکھیڑوں سے کیا سروکار۔ اور مجھ پر تو ویسے ہی ان دنوں قنوطیت کا عالم طاری ہے۔ بس کالم لکھنے کی تحریک پیدا کرنے والا موضوع ہاتھ آیا تو سوچا کہ اے ضائع کیوں جانے دیا جائے ورنہ رائیگانی کی اذیت پیچھا کرتی رہے گی۔ فی الوقت صرف رائو تحسین اور طارق فاطمی کو یہ طعنہ دے کر ذہنی حِظ اٹھانا چاہتا ہوں کہ ’’ہور چُوپو‘‘۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com