قطرہ قطرہ جی رہا ہوں‘ لمحہ لمحہ مر رہا ہوں
دیکھو کتنے کرب سے میں جان سے گزر رہا ہوں
گولے‘ بم‘ بارود سے کم پر کوئی آتا نہیں
کیوں دلیلوں سے میں اپنا وقت ضائع کررہا ہوں
وحشتوں اور آگہی کے بیچ جتنا فاصلہ ہے
رائیگانی کی اذیت میں اسی پہ دھر رہا ہوں
جب وطن میں رہ کے بھی احساسِ بے وطنی رہے
کیا تحفظ گھر میں ہوگا‘ سوچ کر ہی ڈر رہا ہوں
کس طرح ممکن یہاں ہے خیروشر کا فیصلہ
حق پہ ہو کر بھی ہمیشہ میں نشانے پر رہا ہوں
یہ خزاں کا رنگ ہے بہار میں بھی میرے سنگ
زرد پتوں کی طرح فضاﺅں میں بکھر رہا ہوں
بے ثباتی کے جلو میں بھی سجیں گی محفلیں
کون چارہ گر ہے آسی‘ جس پہ تکیہ کررہا ہوں