کسی معاشرے کے متوازن اور مستحکم ہونے کا اندازہ وہاں امن و امان کی صورتحال سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نہ امن و امان ہے، نہ اقتصادی استحکام، نہ روزگار کے مواقع موجود ہیں اور نہ ہی حکمران طبقات عوام کے روٹی روزگار اور امن و امان سے متعلق مسائل حل کرنے میں مخلص نظر آتے ہیں سو یہاں جنگل کے قانون اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے تصور کو تقویت حاصل ہو رہی ہے۔ بدقسمتی سے امن و امان نافذ کرنے کے ذمہ دار سول ادارے پولیس میں ابھی تک روایتی پولیس کلچر کا خاتمہ ہی ممکن نہیں ہو سکا اس لئے یہ ادارہ عوام دوست ہونے اور جرائم پیشہ افراد و طبقات کے خلاف ان کی دادرسی میں معاون بننے میں قطعی ناکام نظر آتا ہے اور اُلٹا عوام اور مظلومین کے ساتھ ناانصافیوں میں خود بھی حصہ دار بن چکا ہے۔
پنجاب کو حکمران مسلم لیگ (ن) کا مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا ہے اور مضبوط قلعہ کے تصور کے تحت ہی تختِ لاہور مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے لئے طعنہ بن چکا ہے۔ اگر اس مضبوط قلعہ میں بھی امن و امان کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہو چکی ہو، چوروں، ڈاکوﺅں، راہزنوں، قاتلوں اور دوسرے جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں حکومتی انتظامی رٹ ہمہ وقت چیلنج ہو رہی ہو اور گورننس نام کی کسی چیز کا تصور بھی ناپید ہوتا نظر آ رہا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ انتہا درجے کی بے روزگاری، غربت اور مہنگائی نے بھی عام گھرانوں میں مایوسی کی چادر تان رکھی ہو تو اس معاشرے کو بھلا خوشحال اور مطمئن انسانی معاشرے سے کیسے تعبیر کیا جا سکتا ہے، چنانچہ صوبے کی گورننس کے حوالے سے مجھے آج انتہائی افسوس کے ساتھ سپریم کورٹ کے مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کے ان ریمارکس کا حوالہ دینا پڑ رہا ہے کہ پنجاب حکومت اعتماد کے قابل نہیں، یہاں ریاست کی رٹ کمزور اور انتظامیہ بے بس ہے۔ اگرچہ فاضل عدالت نے یہ ریمارکس محکمہ اوقاف کی وقف کی گئی 44 ہزار ایکڑ اراضی میں مبینہ انتظامی بے ضابطگیوں کے حوالے سے دئیے ہیں تاہم ان ریمارکس میں مجموعی طور پر حکومتی گورننس پر عدالتی عدم اطمینان کا اظہار موجود ہے اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اصلاحی نکتہ نظر سے دئیے جانے والے ایسے عدالتی ریمارکس کے باوجود حکمران طبقات کے کانوں پر اصلاح احوال کے معاملہ میں جوں تک نہیں رینگتی۔
لاہور میں گزشتہ کچھ عرصہ سے جس شدت اور دیدہ دلیری کے ساتھ اہم شاہراہوں سے لے کر شہری آبادیوں کے گلی محلوں، چوراہوں تک پر دن دیہاڑے اور رات کے پہلے پہر بھی گن پوائنٹ پر راہزنی، ڈکیتی، خواتین کی بے حرمتی اور دوسرے سٹریٹ کرائمز کا سلسلہ جاری ہے، اس پر محض تشویش کے اظہار پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا بلکہ معاشرے کی اصلاح اور سسٹم کا استحکام مقصود ہے تو عوام کے ساتھ خالی خولی ہمدردی کے اظہار کے بجائے انہیں ایسے جرائم سے مستقل نجات دلانے کی ضرورت ہے کیونکہ دیدہ دلیری کے ساتھ رونما ہونے والے سٹریٹ کرائمز نے عوام کو عملاً گھروں کے اندر اور باہر قطعی غیر محفوظ بنا دیا ہے جنہیں اپنے ساتھ ہونے والے جرائم پر دادرسی کے بجائے پولیس تھانوں میں بھی دھکے اور گالیاں کھانے کو ملتی ہیں اور ریلیف کے لئے مدعی بن کر جانے والے ملزم بن کر پولیس تھانوں سے باہر نکلتے ہیں تو اس سے شرفِ انسانیت کا عملاً جنازہ نکل جاتا ہے۔ میں یہ باتیں محض سُنی سُنائی نہیں بلکہ اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کر رہا ہوں کیونکہ میرے آس پڑوس میں تقریباً روزانہ رہزنی اور ڈکیتی کی واردات ہوتی ہے اور جب ایسے جرائم کی بیخ کنی کے لئے پولیس کی کارکردگی بہتر ہونے کے حکومتی اور ادارہ جاتی دعوﺅں کی بنیاد پر پولیس ہیلپ لائن 15 پر کال کر کے مدد اور دادرسی کے لئے پکارا جاتا ہے تو رہزنوں سے لٹنے والے بے وسیلہ شہریوں کی دادرسی تو کجا، انہیں پولیس کے ہاتھوں بھی ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔ رہزنوں اور ڈکیتوں سے زیادہ پولیس سے خلاصی حاصل کرنے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔
میں چونکہ اپنے علاقے کی ویلفیئر سوسائٹی کا صدر بھی ہوں اس لئے اپنے رہائشی علاقہ میں آئے روز ہونے والی بدقماشوں کی وارداتیں اور خواتین کے ساتھ بے حرمتی کے واقعات میرے نوٹس میں آتے رہتے ہیں۔ کوئی دو ہفتے قبل میرے پڑوس میں سابق ڈسٹرکٹ کونسلر فرح دیبا کی بیٹی کو ان کے گھر کے گیٹ کے باہر بدقماشوں نے گن پوائنٹ پر لوٹ لیا تو میں نے خود ون فائیو پر کال کر کے پولیس کی امداد طلب کی۔ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او صاحب تشریف لائے اور وقوعہ کی ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے ہمیں مشورے دینے لگے کہ آپ اپنے علاقے کی سکیورٹی کا خود انتظام کر لیں جس کیلئے گیٹ لگانے اور سکیورٹی گارڈز رکھنے کا مشورہ بھی ان کی جانب سے موصول ہو گیا۔ میں نے انہیں عرض کی کہ اگر اپنی حفاظت کا ہم نے خود ہی بندوبست کرنا ہے تو آپ آئین پاکستان سے بنیادی انسانی حقوق کی وہ شق کوشش کر کے نکلوا دیں جس کے تحت ہر شہری کی جان، مال اور عزت نفس کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی قرار دی گئی ہے۔ غضب خدا کہ آئین کے تقاضے کے تحت متعین ہمارے محافظین کے دل و دماغ میں ایسی عقل و فہم کی بات اتر ہی نہیں پاتی اور روایتی پولیس کلچر غالب آ جاتا ہے۔ لاہور میں دیدہ دلیری کے ساتھ ہونےوالی راہزنی اور ڈکیتی کی ایسی وارداتوں کا گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی نوٹس لیا ہے اور ایسے جرائم کی سرکوبی کیلئے قائم کی گئی خصوصی پولیس فورس ڈولفن کو جھنجھوڑا ہے مگر اس کے بعد بھی اس شہر میں ایک سٹیج اداکارہ قسمت بیگ قتل ہوئی اور گزشتہ شب خود مجھے اور میرے بچوں کو میرے گھر کے سامنے بدقماش عناصر کی غنڈہ گردی اور غلیظ گالیوں کا سامنا کرنا پڑا تو مجھے اصلاح احوال کیلئے حکمران طبقات کے دعوے، نعرے اور احکام محض وعظ کے زمرے میں شامل نظر آئے۔
بخدا تھوڑا سا سنجیدگی سے جائزہ لیجئے کہ ہماری پڑھی لکھی نوجوان نسل گمراہیوں اور سٹریٹ کرائم کے راستے پر کیوں چل نکلی ہے۔ یقیناً ان نوجوانوں کی گمراہی میں ان کے والدین کی عدم توجہی اور ان کے جرائم دیکھ کر بھی ان کی اصلاح کیلئے کوئی قدم نہ اٹھانے کا عمل دخل ہو گا مگر میں سمجھتا ہوں کہ والدین پر تعلیم کے بھاری اخراجات کا بوجھ ڈال کر اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنے والے نوجوانوں کو جب اپنے لئے چھوٹی موٹی ملازمتوں کے دروازے بھی بند نظر آتے ہیں تو وہ امتداد زمانہ کی ٹھوکریں کھاتے مایوسی کے عالم میں یا اپنی زندگی ختم کرنے کا سوچتے ہیں یا جرائم پیشہ عناصر میں شامل ہو کر گناہوں کے دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔ اس لئے آج معاشرے کی اصلاح مقصود ہے تو سب سے پہلے نوجوان نسل کا روزگار کا مسئلہ ختم کیجئے، پھر پولیس کلچر کا رخ عوام کی خدمت کی جانب موڑئیے ورنہ مجھے فرسٹریشن سے لبریز پڑھے لکھے نوجوانوں کے ہاتھوں اس معاشرے کی تباہی دیوار پر لکھی نظر آ رہی ہے۔