گزشتہ روز سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے جج مسٹر جسٹس اقبال حمیدالرحمان کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوایا گیا اپنے ہاتھ سے لکھا چند سطری استعفیٰ زیر گردش رہا۔ اس سے دو روز قبل اخبارات میں ایک سنگل کالم خبر شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے سیکرٹری نے سپریم کورٹ کے جسٹس اقبال حمیدالرحمان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا ہے جس میں ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال کے متعدد الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ میری جس اقبال حمیدالرحمان سے نیاز مندی ہے ان کے بارے میں کسی بے ضابطگی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا اس لئے متذکرہ خبر پڑھ کر میرے ذہن کو جھٹکا سا لگا۔ ابھی میں اس حوالے سے شش و پنج ہی میں تھا کہ آج جسٹس اقبال حمیدالرحمان کے مستعفی ہونے کی خبر نے مجھے اور چونکا دیا۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل کا ادارہ ضرور موجود ہے مگر اس ادارے کو شاذونادر ہی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے کسی جج کے خلاف کارروائی کا موقع ملا ہے۔ میں نے اپنے صحافتی فرائض کے دوران 28,27 برس اعلیٰ عدلیہ اور وکلاءکے نمائندہ اداروں کی رپورٹنگ کرتے ہوئے گزارے ہیں۔ جب میں 70ءکی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی لاءکالج کا طالب علم تھا تو اس وقت سے ہی بالخصوص اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججوں کے بارے میں میرے ذہن میں وقار کی علامت والا تصور اور تشخص قائم ہو گیا تھا۔ میرے کئی اساتذہ بعدازاں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کے منصب پر بھی فائز ہوئے اور لاہور ہائیکورٹ بار، سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کے عہدیدار بھی منتخب ہوئے چنانچہ عدالتی ”بیٹ“ میں ان اساتذہ کے ساتھ میرے تعلقات میری پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں معاون بنتے رہے اور عدلیہ کی بگڑتی، بنتی تاریخ کے کچھ حصے کے مشاہدے کا بھی مجھے موقع ملتا رہا۔ جج کے منصب پر تقرر کا طریق کار مختلف ادوار میں ضرور تبدیل ہوتا رہا ہے مگر اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کو برطرف کرنے کا اختیار آئین کے تحت کسی حکمران کو حاصل نہیں رہا۔ ماسوائے اس کے کہ کسی ایڈہاک جج کی باقاعدہ جج کے لئے توثیق نہ کرکے اس سے خلاصی حاصل کر لی جائے۔ صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی وہ واحد فورم ہے جہاں اعلیٰ عدلیہ کے کسی فاضل جج کے خلاف ریفرنس دائر ہو سکتا ہے اور اس ریفرنس میں الزام ثابت ہونے پر متعلقہ جج کو ان کے منصب سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ عدلیہ کی تاریخ میں مشرف آمریت سے پہلے صرف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں آیا تھا جو لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شیخ شوکت علی کے خلاف تھا اور اس میں فاضل جج پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے تھے جو ثابت ہوئے اور سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات کی بنیاد پر انہیں جج کے منصب سے فارغ کیا گیا۔ ہمارے دوست مرحوم ملک محمد قاسم زمانہ طالب علمی میں شیخ شوکت علی کے کلاس فیلو اور ہوسٹل میں روم میٹ تھے اس لئے وہ شیخ شوکت علی کے بعض ذاتی معاملات کے تذکرے چسکے لے لے کر کیا کرتے تھے۔ اس پس منظر میں شیخ شوکت علی کی ریفرنس کے ذریعے برطرفی درست نظر آتی تھی۔ پھر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو فارغ کرنے کا اختیار جرنیلی آمروں نے پی سی او کے تحت استعمال کیا مگر ضیاءدور میں یہ ہتھیار اس لئے زیادہ کارگر نہ ہو سکا کہ اعلیٰ عدلیہ کے فاضل جج ماسوائے میرے استاد میاں آفتاب فرخ کے، 1981ءکے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر ”راضی برضا“ ہو گئے۔ چیف جسٹس انوارالحق اور مولوی مشتاق سمیت جو دوسرے فاضل جج اپنے منصب سے فارغ ہوئے ان کے بارے میں یہی اطلاعات تھیں کہ انہیں حلف اٹھانے کے لئے بلایا ہی نہیں گیا تھا ورنہ وہ بھی پی سی او سے سرفراز ہو جاتے۔ صرف جسٹس شیخ عبدالوحید سپریم کورٹ کے وہ واحد فاضل جج تھے جن کے بارے میں یہ خبریں زیر گردش آئیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف بیگم نصرت بھٹو کی سپریم کورٹ میں دائر کردہ اپیل پر ان کی سزا برقرار رکھوانے کے لئے جسٹس وحید کو جبری رخصت پر بھجوا دیا گیا تھا کیونکہ ضیاءآمریت کو کہیں سے یہ بھنک پڑ گئی تھی کہ جسٹس شیخ عبدالوحید ہائیکورٹ کا فیصلہ الٹا دیں گے۔ تاہم ان کے رخصت پر جانے کا اصل پس منظر آج تک منظر عام پر نہیں آ سکا، بھٹو کی پھانسی کی سزا برقرار رکھنے والا سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی متنازعہ ہو گیا کیونکہ سات رکنی بنچ کے تین فاضل ججوں نے اختلافی نوٹ لکھ کر بھٹو کی سزائے موت ختم کرنے کا کہا تھا۔
پی سی او کی کہانی جرنیلی آمر مشرف نے بھی دہرائی اور 2001ءمیں پی سی او نافذ کرکے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو اس کا حلف اٹھانے کا کہا۔ اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججوں کی اکثریت نے اس پر بھی صاد کر لیا تاہم سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس سعیدالزمان صدیقی سمیت اعلیٰ عدلیہ کے چند ججوں نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھا کر پہلی بار جرنیلی آمریت کو چیلنج ضرور کیا تھا البتہ مشرف نے سپریم کورٹ کے دوسرے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے خلاصی پانے کے لئے جبری ہتھکنڈہ اختیار کرنے کی کوشش کی جنہیں آرمی ہاﺅس میں بلوا کر انہوں نے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور ان کے انکار پر اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کے ذریعے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوا دیا۔ یہ جرنیلی ہتھکنڈہ عدلیہ کی تاریخ میں واحد حکومتی اقدام قرار پایا ہے جس کے تحت ایک سرونگ چیف جسٹس کو معطل کیا گیا جبکہ اس کا ردعمل مشرف کو سپریم جوڈیشل کونسل سے جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی صورت میں بھگتنا پڑا اور اسی ردعمل میں مشرف نے 2 نومبر 2007ءکو ملک میں ایمرجنسی اور پی سی او نافذ کرکے اعلیٰ عدلیہ کے 60 کے قریب فاضل ججوں کو گھر بھجوایا تھا جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا، جسٹس اقبال حمیدالرحمان بھی ان میں شامل تھے چنانچہ کسی جرنیلی آمر کا یہ واحد پی سی او تھا جس کے خلاف مشرف آمریت کو عدلیہ کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے باوردی اقتدار کی بنیادیں ہلیں۔ انہیں اپنی وردی اور تلوار جنرل کیانی کے سپرد کرنا پڑی اور پھر سول صدر کی حیثیت سے وہ ایوان صدر سے باہر نکلنے پر مجبور کر دئیے گئے جبکہ ان کے پابند سلاسل کئے گئے اعلیٰ عدلیہ کے فاضل جج سول سوسائٹی کی تحریک کے زور پر باعزت بحال ہو کر عدلیہ میں واپس آئے۔ اس طرح عدلیہ کی تاریخ میں سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ماسوائے شیخ شوکت علی کے، اعلیٰ عدلیہ کے کسی فاضل جج کو گھر بھجوانے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
اب جسٹس اقبال حمید الرحمان کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے سیکرٹری کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا گیا جس میں ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ میں لوگوں کو نوکریاں دینے کا الزام عائد کیا گیا تو مجھے اس پر اس لئے حیرت ہوئی کہ میں جسٹس اقبال حمیدالرحمان کے خاندانی پس منظر اور ان کی بطور وکیل پیشہ ورانہ ساکھ کی بنیاد پر یہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ انہوں نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہو گا۔ ان کے والد جسٹس حمودالرحمان بھی باوقار انداز میں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کے منصب پر فائز رہے اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کی انکوائری کے لئے جوڈیشل کمشن کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے اپنی عزت و ساکھ اور غیر جانبداری پر کوئی حرف نہ آنے دیا۔ اگرچہ یہ رپورٹ باضابطہ طور پر آج تک منظر عام پر نہیں آ سکی تاہم اس رپورٹ کی ”لیکس“ نے انہیں ایک باوقار جج کے طور پر ہی دکھایا کہ انہوں نے اس سانحہ کے اصل ملزمان کی نشاندہی کر دی تھی چاہے وہ اس وقت حکومت میں شامل تھے یا فوجی بیوروکریسی کا حصہ تھے۔ بطور وکیل جسٹس اقبال حمیدالرحمان نے اپنے والد کی ساکھ پر کبھی حرف نہیں آنے دیا۔ وہ لاہور ہائیکورٹ بار کے سیکرٹری منتخب ہوئے اور وقار کے ساتھ یہ منصب نبھایا۔ پھر وہ ہائیکورٹ کے جج کے منصب پر فائز ہوئے جہاں سے انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ بھجوایا گیا اور وہ چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوئے۔ پھر انہیں سپریم کورٹ کے جج کے منصب پر تعینات کر دیا گیا۔ ان کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے منصب پر تقرر کے حوالے سے ضرور ایک آئینی تنازعہ کھڑا ہوا تھا اور اسی کی بنیاد پر انہیں سپریم کورٹ بھجوایا گیا تھا تاہم ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام کم از کم مجھ سے تو ہضم نہیں ہو رہا اور ان کے بڑے پن کا اس سے زیادہ ٹھوس اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ انہوں نے محض الزام کی بنیاد پر جج کے منصب سے ازخود استعفیٰ دے دیا ہے تاکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کی عزت اور ساکھ پر کسی کو گند اچھالنے کا موقع نہ ملے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جسٹس اقبال حمیدالرحمان نے اپنے اجلے دامن پر کسی غلاظت کا چھینٹا تک نہ پڑنے دینے کی نئی مثال قائم کی ہے جو یقیناً عدلیہ میں بھی مشعل راہ بنے گی اور اگر اقتدار کے ایوانوں میں بھی اس اچھوتی مثال کو مشعل راہ بنا لیا جائے تو اس سے بام عروج پر پہنچی بلیم گیم کی سیاست کا بھی قلع قمع ہو جائے۔ مگر اس کے لئے تو جسٹس اقبال حمیدالرحمان جیسی شخصیت اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ میں انہیں باعزت گھر واپسی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔