یہ مسلمہ اصول ہے کہ جمہوریت تبھی کامیاب ہو گی جب یہ جمہور کو اپنے ثمرات پہنچا رہی ہو گی۔ یقیناً اسی بنیاد پر جمہور کا جمہوریت کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم ہو سکتا ہے مگر ہماری سلطانیٔ جمہور میں تو معاملہ ہی کچھ اور نظر آتا ہے کیونکہ یہاں سلطانیٔ جمہور میں جمہور ہی کی سب سے زیادہ ناقدری ہوتی ہے۔ ہماری جمہوریت میں تو عرف عام والے عوام الناس ہی راندۂ درگاہ ہیں جنہیں جمہوریت میں آسائشات والے لوازمات تو کجا‘ روٹی روزگار والی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں۔ سو ہماری جمہوریت میں جمہور کیلئے درویشی بھی عیاری ہے‘ سلطانی بھی عیاری۔
کل حکمران مسلم لیگ (ن) سے وابستہ احباب سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ بات جمہوریت کے ’’ڈیلیور‘‘ کرنے پر آئی تو حکمران پارٹی کے یہ لوگ اپنی ہی حکمرانی کے خلاف پھٹ پڑے۔ ’’بھئی اس سسٹم میں تو سلطانیٔ جمہور عوام کے زور پر نہیں‘ افسران کے زور پر چلائی جا رہی ہے جس میں عام ورکر ہی نہیں‘ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بھی بے بس ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کو سرکاری محکموں میں معمولی روزگار بھی نہیں دلوا سکتے‘ وہ شکایات کی گٹھڑی اٹھائے اسمبلی کے اجلاس میں جاتے ہیں تو وہاں بھی ان کی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تک رسائی نہیں ہو پاتی جبکہ عام دنوں میں تو ان کے لئے وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے دروازے ہی بند ہوتے ہیں۔ اب تو وہ شرمندہ ہوتے اپنے حلقے کا رخ ہی نہیں کرتے کہ وہاں جا کر اپنی بے بسی کا کیسے رونا روئیں اور ان سے اچھے مستقبل کی توقعات وابستہ کئے بیٹھے اپنے ورکروں کو کیسے مطمئن کریں۔ ایک صاحب تو بہت ہی اکتائے ہوئے نظر آئے‘ مسائل کے تفکرات سے اپنی جبین پر پڑی ہوئی سلوٹوں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے بولے ’’بھئی ہمارے میاں صاحبان کو اب حکومت چلانے کا ڈھنگ آ گیا ہے‘‘ ’’وہ کیسے؟‘‘ ہمارے استفسار پر ان کی آنکھوں کی ویرانی اور بھی گہری ہوتی نظر آئی۔‘‘ ارے انہوں نے بیوروکریسی پر تکیہ کرنے کی عادت اپنا لی ہے۔ وہ بیوروکریسی کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں تو بیوروکریسی بھی انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا فن جان گئی ہے۔ چنانچہ حکمرانی کے درمیان عوام اور ان کے نمائندگان کا کوئی وجود نہیں رہا۔ یوں سمجھیں اب ڈائریکٹ ڈائیلنگ اور ڈیلنگ ہے۔ سو اوپر اوپر سب وارے نیارے اور عوام کی سطح پر محرومیاں‘ ناکامیاں‘ نامرادیاں۔
ایک متوالے سے نہ رہا گیا آج کا اخبار سامنے پڑا تھا جس میں پراپرٹی کی خرید و فروخت کے حوالے سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی اعلان کردہ ایمنسٹی سکیم کی خبر شہہ سرخی کے طور پر موجود تھی۔ میرا ذہن تو اس سکیم کا اچھے پیرائے میں جائزہ لے رہا تھا مگر متوالے نے جو اتفاق سے پراپرٹی کا کاروبار بھی کرتے ہیں‘ اس سکیم کے مضمرات بتانا شروع کئے تو میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ جناب اب دیکھئے آسمان کو پہنچنے والی زمین کی قیمتیں کتنی تیزی سے نیچے کو آتی ہیں۔ اب رئیل اسٹیٹ حقیقی بحران سے دوچار ہونے والی ہے۔ ’’ارے وہ کیسے۔ زمین کے نرخ کم ہونے سے تو عام آدمی کو ہی فائدہ ہو گا۔ جن کیلئے سونے سے بھی زیادہ مہنگی ہونے والی زمین پر اپنا گھر بنانے کا تصور ہی بے معنی ہو چکا تھا‘ وہ زمین کے نرخ سستے ہونے سے کم از کم اپنی چھت کا خواب تو پورا کر سکیں گے۔‘‘ میں نے حکومتی نمائندہ اپنے دوست کو مزید کریدنے کی کوشش کی۔ جناب یہ تو آپ کو مستقبل قریب میں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ جائیداد کی خرید و فروخت کی نئی سکیم عام عوام کیلئے کتنے بڑے عذاب کا باعث بنتی ہے۔ زمین ’’ٹکے ٹوکری‘‘ ضرور ہو گی مگر زمین بیچنے والا کوئی نہیں ہو گا اور پھر جن انوسٹرز نے زمین خرید کر بڑے منافع کیلئے محفوظ رکھنی ہوتی ہے‘ اب ان کا وجود بھی ناپید ہو جائے گا۔ انہوں نے ایف بی آر کو ہتھیار دے دیا ہے۔ اس لئے اب ہو گا یوں کہ جن انوسٹرز نے بڑے منافع کیلئے زمین خرید کر رکھی ہوئی ہے ان پر مختلف نوعیت کے ٹیکس عائد ہونگے تو وہ ان ٹیکسوں سے جان چھڑانے کیلئے اپنی زمینیںاونے پونے داموں بیچنے کی کوشش کریں گے جس سے لامحالہ قیمتیں تیزی کے ساتھ نیچے کو آئیں گی۔ چنانچہ زیادہ تر انوسٹر حضرات ہی سستے داموں یہ زمینیں خریدنے کیلئے میدان میں آ جائیں گے مگر انہیں اس وقت لینے کے دینے پڑ جائیں گے جب وہ چالیس لاکھ سے زیادہ کی اراضی پر کیپٹل گین ٹیکس ادا کرنے کیلئے ایف بی آر کے پاس جائیں گے۔ وہاں ان سے پہلا سوال یہ ہو گا کہ اتنی بڑی رقم آپ کے پاس آئی کہاں سے؟ اس کا حساب کتاب شروع ہوگا تو ٹکے ٹوکری ہوئی زمین خریدنے کے خواہش مند سارے انویسٹر بھاگ جائیں گے۔ چنانچہ مارکیٹ میں زمین بیچنے والا ہوگا نہ خریدنے والا۔ اس طرح رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ایک دم مندی کا شکار ہو جائے گا اور اس کاروبار سے وابستہ عام عوام کاروبار ٹھپ ہونے سے فاقہ کشی کا شکار ہو جائیں گے۔ کاروبار چمکے گا تو ایف بی آر والوں کا جو مک مکا کے فن میں یکتا ہیں۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ اس سکیم کے ذریعہ عام عوام میں پیدا کی جانے والی یہ بے چینی سلطانیٔ جمہور کا کیسے پھُلکا اڑاتی ہے۔ متوالے نے خشمگیں آنکھوں سے میری جانب دیکھا۔ میں نے مزید استفسار کا سوچا ہی تھا کہ ان کے ساتھ بیٹھے دوسرے متوالے کی زبان کی لگام بھی ڈھیلی ہو گئی جو لیسکو اہلکاروں کی چیرہ دستیوں کے ستائے ہوئے تھے۔ ’’ایک تو بجلی ناپید ہے۔ حبس کے اس موسم میں جسم ہر وقت پسینے میں شرابور رہتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ لیسکو نے اپنے لگائے جانے والے سنگل فیز کے میٹر بھی اتنے تیز رکھے ہوئے ہیں کہ انہیں جستیں بھرتا دیکھ کر دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہو جاتی ہیں۔ میرا نیا میٹر ابھی چالو بھی نہیں ہوا کہ اس نے ایک مہینے کے 42 سو یونٹ میرے کھاتے میں ڈال دیئے۔ اب میٹر درست یا تبدیل کرانے کیلئے لیسکو دفاتر میں چکر لگانے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جہاں اہلکار بے شرمی کے ساتھ دیدے پھاڑ کر اپنے شکار کے منتظر نظر آتے ہیں‘ سرعام نذرانہ طلب کرتے ہیں اور انکار کی صورت میں میٹر تبدیل ہوتا ہے نہ بل۔ اس محکمے کو ایسی ہلا شیری اوپر تک کی آشیرباد کے بغیر تو نہیں مل سکتی۔ سو عوام کیلئے لوڈشیڈنگ بھی اذیت اور معمولی سی بجلی کی فراہمی بھی اذیت۔ جائیں تو جائیں کہاں‘‘۔
اس محفل یاراں میں سلطانی جمہور کے ساتھ بدگمانی بڑھتی ہی چلی گئی۔ ملازمتوں کے معدوم ہونے سے گرانی کی انتہا تک متوالے عوام کو راندۂ درگاہ بنانے والی ہر حکمت عملی کا کھرا اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانتے رہے اور نتیجہ یہ اخذ ہوا کہ ہماری سلطانی جمہور‘ جمہور کی نہیں‘ بس حکمران اشرافیہ طبقات ہی کی رکھوالی ہے جس میں جمہوری سلطانوں کی ہر سوچ‘ ہر حکمت عملی‘ ہر پالیسی جمہور پر مظالم توڑنے اور اسے انتہائی بے بس کرکے ’’راج کرے گا خالصہ تے آکی رہے نہ کو‘‘ کی فضا اپنے اقتدار کی طوالت و تحفظ کیلئے اختیار کی گئی ہے۔ تو بھائی صاحب! آپ راندۂ درگاہ بنائے گئے ان عوام سے توقعات وابستہ کریں کہ وہ سلطانی جمہور پر ٹوٹی کسی افتاد کو ٹالنے کیلئے اس کے آگے ڈھال بن جائیں گے۔ انہیں روندنے کیلئے آنے والے ٹینکوں کے آ گے بخوشی اپنا سر جھونک دیں گے اور ان قربانیوں کے صدقے بچنے والی سلطانی جمہور کو آئندہ کیلئے بھی سر آنکھوں پر بٹھائے رکھیں گے۔ ارے ’’یہ کیسی باتیں کرتے ہو‘ یہ کیسا درد سموتے ہو۔‘‘
مجھے سلطانی جمہور کی اس تصویر میں تو جمہوری سلطانوں کے اپنے اندر سے طوفان اٹھتا اور لاوا اُبلتا نظر آرہا ہے۔ آپ جمہوریت کو جمہور کی پہنچ سے دور لے جائیںگے تو وہ سراب کے پیچھے آخر تک دوڑتے ہلکان ہوتے رہیں گے۔ اسے بچانا اور مضبوط بنانا مقصود ہے تو جمہور کو اس کے ساتھ وابستہ کر لیں۔ جمہوریت اور جمہور میں خلیج بڑھ گئی تو پھر اس خلا میں جن بھوتوں کا ہی بسیرا ہوگا۔