”جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں“
Jun 14, 2016

کیا میاں نواز شریف تک یہ خبر پہنچی ہے کہ انہیں سیاست کی ابجد سکھانے والے ہمارے بھائی اور نیک نام سینئر صحافی محمود زمان آج اس دنیا میں نہیں رہے۔ میاں صاحب تو اب لندن میں ماشاءاللہ روبصحت ہیں اور ہائیڈ پارک میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ چہل قدمی کرتے ہوئے ان کی تصویر بھی میڈیا کی زینت بن گئی ہے۔ ممکن ہے انہیں اب تک اپنے ٹیوٹر محمود زمان کے انتقال کا علم نہ ہوا ہو مگر مجھے یقین ہے کہ ان کے پارٹی عہدے دار بھی اس سانحہ ارتحال سے لاعلم ہوں گے کیونکہ محمود زمان کے انتقال کی کوئی سنگل کالم خبر بھی کسی اخبار میں شائع نہیں ہوئی حتیٰ کہ ”ڈان“ کو بھی یہ خبر موصول نہیں ہو سکی جس میں محمود زمان نے سالہا سال تک صحافی خدمات سرانجام دیں۔ اور تو اور فرنٹیئر پوسٹ کو بھی اس خبر کی کانوں کان خبر نہیں ہو سکی جس کا محمود زمان اپنی زندگی کی آخری سانس نکلنے سے پہلے تک اداریہ تحریر کرتے رہے۔ میں نے تین روز قبل سوشل میڈیا پر خاور نعیم ہاشمی کی فیس بک آئی ڈی پر پوسٹ کی گئی یہ خبر پڑھی کہ ہمارے سینئر ساتھی محمود زمان راولپنڈی میں جان کی بازی ہار گئے ہیں تو دل ٹوٹ کر حلق میں آ گیا۔ محمود زمان سے کافی عرصے سے رابطہ کٹا ہوا تھا اس لئے ان کے انتقال کی اطلاع پر ایک لمحہ کو یقین نہ آیا۔ تھوڑی دیر بعد فرخ مرغوب کی ٹیلی فون کال موصول ہوئی تو وہ بھی محمود زمان کے انتقال کی سوشل میڈیا پر چلنے والی خبر پر آزردہ نظر آئے اور رندھے ہوئے لہجے میں مجھ سے استفسار کرنے لگے کہ کیا فی الواقع ہمارے یہ دیرینہ دوست اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ میرا دل خود اس کشمکش میں تھا کہ اس خبر کی تصدیق نہ ہی ہو تو اچھا ہے اگلے روز میں نے سارے اردو، انگریزی اخبار کھنگال لئے مگر کہیں بھی محمود زمان کے انتقال کے حوالے سے کوئی ایک لفظ بھی شائع شدہ نظر نہ آیا۔ دل کی کشمکش اور بھی بڑھ گئی۔ اگر فی الواقع ان کا انتقال ہو گیا ہے تو صحافی برادری کے حقوق کی جدوجہد میں قربانیاں دینے، آزادی صحافت کا علم بلند کئے رکھنے اور ضیاءالحق کی جرنیلی آمریت کی جانب سے صحافی برادری کو گروپوں میں تقسیم کرنے کی سازشوں کے آگے ڈٹ کر لاہور پریس کلب کے احیاءکے لئے کلیدی کردار ادا کرنے والے ہمارے اس بھائی کی پورے میڈیا تک بھی کیوں خبر نہیں پہنچ سکی۔ مگر ایسا نہیں، سوشل میڈیا نے تو محمود زمان کی اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے کی ان کے انتقال کے ساتھ ہی اطلاع فراہم کر دی تھی اس لئے ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کہیں یہ خبر نظر نہیں آئی تو یہ اجتماعی طور پر ہماری بے حسی کی انتہا ہے۔ اگلے روز بی بی سی اردو سروس نے یہ خبر چلائی جو یقیناً محمود زمان کے نیازمند ہمارے دوست عبادالحق نے فراہم کی ہو گی جو سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی اطلاع کی بنیاد پر میرے ساتھ بھی دکھ کا اظہار کر چکے تھے۔ سو اب بادل نخواستہ یقین کر ہی لیا جائے کہ محمود زمان دیانتداری کے ساتھ اس پیشے کے تقدس کو سنبھالتے سنبھالتے اس جہان سے گزر گئے ہیں۔ ان سے وابستہ یادیں ہیں کہ امڈتی چلی آتی ہیں مگر اظہار کے لئے الفاظ ساتھ چھوڑ گئے ہیں....

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

محمود زمان فی الواقع قلندر آدمی تھے۔ معصوم اور سادہ دل مگر اپنے پیشے میں مشّاق اور فرائض کی انجام دہی میں تروتازہ اور توانا۔ ان کی شخصیت اور کردار پر اپنے پیشہ سے بددیانتی یا کرپشن کلچر میں لتھڑے ہونے کا کوئی ایک دھبہ بھی لگا ہوا نظر نہیں آتا۔ بھٹو کے عہد اقتدار سے بھی پہلے 60ءکی دہائی کے آخر میں روزنامہ مساوات سے اپنے صحافتی کیرئر کا آغاز کرنے والے ہمارے یہ سادہ دل بھائی دنیا دنیا گھومتے رہے مگر عمر بھر پاکباز رہے۔ ضیاءآمریت میں مساوات پر قدغنیں لگیں تو محمود زمان کا صحافتی سفر معتبر انگریزی اخبار ڈان کے ساتھ شروع ہو گیا۔ اسی طرح ضیاءآمریت کی دستخطی مہم کے ذریعے مخالفت کی پاداش میں روزنامہ مشرق سے نکلنے والے ہمارے دوست سید ممتاز احمد کو بھی ”ڈان“ میں پناہ مل گئی۔ اس وقت ڈان کا بیورو آفس نوائے وقت کے پچھواڑے مال روڈ پر نعیم بخاری کے آفس کے ساتھ منسلک تھا۔ میں نوائے وقت کا ہائیکورٹ اور پولیٹیکل رپورٹر تھا اور اپوزیشن اتحاد ایم آرڈی کی کوریج بھی میری ذمہ داریوں میں شامل تھی۔ ڈان کی طرف سے یہی ذمہ داریاں محمود زمان ادا کر رہے تھے چنانچہ ہماری تعلقداری لاہور ہائیکورٹ سے ڈان اور نوائے وقت کے آفس تک قائم ہو گئی۔ درمیان میں کبھی ہمارا پڑاﺅ ملک معراج خالد کے آفس میں بھی پڑ جاتا۔ میں نے محمود زمان کی شرافت اور شائستگی میں کبھی کوئی جھول محسوس نہ کیا۔ خیالات کی ہم آہنگی نے ہمیں اور بھی ایک دوسرے کے قریب کر دیا جبکہ ہائیکورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے اس دور (80ءکی دہائی) کے دوسرے رپورٹرز انجم رشید، افتخار احمد (فتنہ)، ظفر علی مداح، سعید ملک، اشرف ممتاز، ممتاز شفیع، فیض الرحمان اور دوسرے صحافی دوستوں کے ساتھ بھی فیملی ممبرز جیسا رشتہ استوار ہو گیا۔ بعدازاں سید ممتاز احمد، تاج الدین حقیقت، ریاض شاکر اور پھر عبادالحق بھی ہائیکورٹ کے بیٹ رپورٹر کی حیثیت سے ہمارے ساتھ فیملی ممبرز کے درجے پر فائز ہو گئے۔ ان میں محمود زمان سینئر صحافی ہونے کے ناطے ہم سب کے لئے ہمیشہ قابلِ احترام رہے۔ بے تکلفی ہوئی تو مختلف ممالک میں اپنے سفر و قیام کی داستانیں بھی ہمارے ساتھ رازداری کے انداز میں شیئر کرتے رہے۔ ایک بنجارے کے انداز میں وہ زیادہ تر سڑک اور ریل کے ذریعے دنیا دنیا گھومے مگر اپنی پاکستانیت پر کسی کلچر کو حاوی نہ ہونے دیا۔ پیشہ صحافت میں اتنے معتبر کہ ہر حکمران کے ساتھ ان کی ذاتی آشنائی تھی۔ مساوات میں ذوالفقار علی بھٹو صرف ان کے نام آشنا تھے چنانچہ ضیاءالحق کے ہاتھوں اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد کوٹ لکھپت جیل میں قید کے دوران انہوں نے صرف محمود زمان کو انٹرویو کے لئے بلوایا تھا۔ ایک دن ترنگ میں آ کر انہوں نے میاں نواز شریف کا ٹیوٹر بننے کی بھی ساری داستان سنا ڈالی۔ ان کے بقول میاں محمد شریف نے انہیں اس مقصد کے لئے ”ہائر“ کیا تھا جو اپنے بیٹے میاں نواز شریف کو سیاست میں لانے کے خواہش مند تھے۔ چنانچہ وہ روزانہ میاں شریف کے گھر جا کر میاں نواز شریف کو انگریزی لب و لہجہ اور سیاسی موشگافیوں سے آگاہ کرنے لگے مگر ان کے بقول میاں نواز شریف میں اس وقت سیاسی میلان ہی نہیں تھا اور وہ ان کے لیکچر کے دوران اکثر کاپی سے کاغذ پھاڑ کر اس کا باجہ بناتے اور دوربین کی طرح آنکھوں سے لگا کر انہیں دیکھتے رہتے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ میاں نواز شریف مقبول سیاسی لیڈر بن گئے اور محمود زمان کو ان کے جلسے کی کوریج کے لئے جانا پڑا تو مجمع کے پیچھے کھڑے محمود زمان پر ان کی نظر پڑ گئی۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے محمود زمان کو اپنے پاس آنے کے لئے کہا تو وہ ہجوم کے سروں سے پھلانگتے ہوئے بمشکل تمام ان تک پہنچ پائے۔ بینظیر بھٹو ملک واپس آئیں تو لاہور ائرپورٹ سے یادگار پاکستان تک ان کے -10اپریل 1986ءکے دن بھر کے جلوس اور جلسے کی ہم سب ہائیکورٹ اور پولیٹیکل رپورٹرز نے اکٹھے ہی کوریج کی۔ اس دوران بھی محمود زمان کے صحافتی تجربات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ ضیاءآمریت نے صحافیوں کو رشید صدیقی گروپ اور برنا گروپ میں تقسیم کر دیا تھا جس کے باعث صحافیوں کی ٹریڈ یونین بھی غیر موثر ہو کر رہ گئی اور لاہور پریس کلب پر رشید صدیقی گروپ نے اپنا تسلط جما لیا جس کے نتیجہ میں پریس کلب بھی غیر فعال ہو گیا۔ 1983ءمیں کچھ صحافی دوستوں نے پریس کلب کے احیاءکے لئے دستخطی مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کا مرکز ”ڈان“ کا بیورو آفس تھا جہاں سے نثار عثمانی کی سرپرستی میں محمود زمان، صادق جعفری اور اظہر جعفری نے یہ بیڑہ اٹھایا اور پھر میرے علاوہ انجم رشید، سید ممتاز احمد اور کچھ دوسرے صحافی دوست بھی ان کے شریک سفر ہو گئے۔ اس مہم نے ایک الگ پریس کلب کی شکل میں کامیابی حاصل کی جس کے پہلے انتخاب میں امتیاز راشد اور قدرت اللہ چودھری صدر اور سیکرٹری کے منصب پر منتخب ہوئے جبکہ گورننگ باڈی میں محمود زمان، انجم رشید، اظہر جعفری اور صادق جعفری کامیاب ہوئے۔ 1984ءکے انتخاب میں سیکرٹری کے منصب پر خاور نعیم ہاشمی کے مقابلے میں مجھے کامیابی حاصل ہوئی جبکہ عزیز مظہر کو بلامقابلہ صدر منتخب کر لیا گیا۔ ضیاءالحق کے جبر کے دور میں لاہور پریس کلب کا احیاءکرکے اس کی سرگرمیاں جاری رکھنا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا اور یہی پریس کلب بعدازاں متحدہ پریس کلب کی بنیاد بنا اس لئے صحافیوں کے اتحاد میں محمود زمان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا اس دور میں ہائیکورٹ کی کوریج بھی ایک جاں گسل ذمہ داری ہوتی تھی۔ قدم قدم پر توہین عدالت اور حکومتی سختیوں کی تلوار لٹکتی نظر آتی تھی۔ اس حوالے سے ایک واقعہ تو یادگار بن گیا ہے۔ غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کرکے غلام مصطفی جتوئی کی سربراہی میں نگران حکومت تشکیل دی تو ان کا یہ اقدام ہائیکورٹ میں چیلنج ہو گیا۔ اس کیس کی سماعت کے دوران فاضل بنچ نے ریمارکس دئیے کہ نگران وزیراعظم صرف روزمرہ کے معاملات ہی نمٹانے کے مجاز ہیں۔ ان ریمارکس پر ہم تمام ہائیکورٹ رپورٹرز نے باہم مشاورت کی اور محمود زمان کی اس تصدیق پر کہ فاضل بنچ نے یہی ریمارکس دئیے ہیں ہم سب نے ایک ہی خبر تیار کی جو اگلے روز تمام قومی اخبارات میں ہیڈ لائن کے طور پر شائع ہوئی۔ اس پر ہائیکورٹ نے چھ قومی اخبارات کے مالکان، مدیران، پبلشرز اور ہم بیٹ رپورٹروں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دئیے۔ چنانچہ محترم مجید نظامی، میر شکیل الرحمان، نثار عثمانی سمیت قومی اخبارات کے مدیران کو بھی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ عدالت کی جانب سے توہین عدالت کے نوٹس واپس لینے کی نوبت محترم مجید نظامی کے عدالت سے بے باک انداز میں مخاطب ہونے سے آئی۔

کچھ عرصہ قبل راولپنڈی سے لاہور آتے ہوئے ٹرین کے ایک حادثہ میں، جس میں ٹرین گوجرانوالہ کے قریب ایک پل کے ساتھ لٹک گئی تھی محمود زمان کی اہلیہ انتقال کر گئیں تاہم خوش قسمتی سے محمود زمان اس حادثہ میں محفوظ رہے۔ اس حادثہ کے بعد محمود زمان گوشہ نشین ہو گئے۔ ایک دن راجہ عبدالرحمان ایڈووکیٹ، ریاض شاکر، عبادالحق، ہائیکورٹ کے پی آر او ایم بی شاہد اور میں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت ناﺅ نوش کے لوازمات کے ساتھ واپڈا ٹاﺅن میں اچانک محمود زمان کے گھر دھاوا بولا اور پورا دن ان کے ساتھ گزارا۔ مقصد ان کی گوشہ نشینی ختم کرنے کا تھا مگر وہ اس گوشہ نشینی میں ہی دو روز قبل اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ خدا ان کی مغفرت کرے....

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com