آج -12اپریل ملک کے پارلیمانی جمہوری نظام والے آئین پاکستان کی 43ویں سالگرہ کا دن ہے سو یہ دن آئین پاکستان کے تقدس کے تحفظ اور اس کی حکمرانی لاگو کرنے کے عہد کا متقاضی ہے مگر اس آئین کی خالق جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین سینٹ رضا ربانی خاں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آئین کی جو شق آئین کا تحفظ نہ کر سکے، اسے آئین سے نکال دینا چاہئے اور پھر اس پارٹی کے موجودہ قائد آصف علی زرداری آئین پھاڑنے والوں کو غدار قرار دے کر آمروں اور غاصبوں کو سزا ملنے کا وقت قریب آنے کی ’’خوشخبری‘‘ سنا رہے ہیں جبکہ اس آئین کے تابع اپنے اقتدار کی تیسری ٹرم تک پہنچنے والے وزیراعظم میاں نواز شریف دستور کی بالادستی برقرار رکھنے اور اس کی جمہوری روح کو بگاڑنے کی تمام تر کوششوں کو ناکام بنانے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان سب اصحاب اقتدار کے لئے میرا تبصرہ غالب کے ایک شعر کا مصرعہ اول ہے کہ
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
اس ملک خداداد کی دستوری تاریخ کوئی اتنی تابناک نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلا آئین 1956ء میں تشکیل پایا جو پارلیمانی جمہوری ڈھانچے پر کھڑا کیا گیا مگر سکندر مرزا نے یہ آئین وضع ہوتے ہی اس کے ساتھ کھلواڑ شروع کر دیا اور کمانڈر انچیف ایوب خاں کو ان کی وردی سمیت بطور وزیر دفاع کابینہ میں شامل کرکے آئین کے جرنیلی بوٹوں تلے روندے جانے کی بنیاد رکھ دی چنانچہ اسی ایوب خاں کے بوٹوں کی دھمک میں سکندر مرزا 1958ء میں انہیں اقتدار منتقل کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ وہی ایوب خاں تھے جنہیں بانی پاکستان قائداعظم نے مشرقی پاکستان میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے متجاوز سرگرمیوں کے باعث تنزلی دے کر میجر جنرل سے بریگیڈئر بنایا اور ان کی سروس فائل پر منفی ریمارکس بھی تحریر کئے تھے۔ یہ اس ملک خداداد کے بانی کی فہم و بصیرت کا بین ثبوت تھا کہ انہوں نے ایوب خاں کے عزائم کا پہلے ہی ادراک کر لیا تھا۔ اگر قائد زندہ رہتے تو ایوب خاں یقیناً کبھی آرمی چیف کے منصب تک نہ پہنچ پاتے جبکہ اسی ایوب خاں نے منتخب جمہوری حکومت کا ماورائے آئین اقدام کے تحت تختہ الٹانے کی ابتدا کی اور پھر قوم نے ایوب خاں کا فرد واحد پر مشتمل صدارتی نظام والا 62ء کا آئین بھی بھگتا اور ان کے ماورائے آئین اقدام کی پیروی کرنے ولے دو دوسرے جرنیلوں ضیاء الحق اور مشرف کی دس دس سال کی جرنیلی آمریتیں بھی بھگتائیں جبکہ ایوب خاں نے اپنے خلاف عوامی تحریک سے زچ ہو کر اپنی جرنیلی آمریت والا اقتدار یحیٰی خاں کو منتقل کر دیا تھا جنہوں نے باوردی اقتدار کے نشے میں چور ہو کر ملک کے دولخت ہونے کی بھی پرواہ نہ کی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے یحیٰی خاں کے عبوری آئین کے تحت بطور صدر مملکت اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اسمبلی میں قوم کو پارلیمانی جمہوری آئین کا تحفہ دینے کے عزم کا اظہار کیا چنانچہ 10اپریل 1973ء کو پارلیمانی آئین کا مسودہ قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور ہوا، جو آج کے دن -12اپریل سے نافذالعمل ہوا۔ یہ مسودہ آئین کی تیاری کے لئے قائم کی گئی مسودہ ساز کمیٹی نے 38دنوں کی عرق ریزی کے ساتھ اپنی 48 نشستوں میں 170گھنٹے کی طویل بحث و تمحیص کے بعد تیار کیا تھا جو یقیناً بھٹو حکومت کا قابل قدر کارنامہ تھا مگر اس آئین میں ترمیم درترمیم کی گنجائش بھی بھٹو حکومت میں ہی نکال لی گئی چنانچہ بھٹو صاحب کے اقتدار کے خاتمہ تک یہ آئین 6ترامیم کا بوجھ اٹھا چکا تھا۔
پی این اے کی تحریک سے تقویت حاصل کرکے جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977ء کو جرنیلی شب خون کے تحت بھٹو حکومت کا تختہ الٹایا تو انہوں نے آئین کو کاغذ کے چند ٹکڑوں سے تعبیر کرتے ہوئے نہ صرف اسے معلق کیا بلکہ اس آئین کے خالق بھٹو کو بھی پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کا اہتمام کر دیا۔ پھر 85ء کی اسمبلی میں فرد واحد کو تقویت پہنچانے والی متعدد آئینی ترامیم کے تحت 73ء کے آئین کی بحالی کی نوبت آئی جس میں ضیاء الحق نے اپنے فائدے کے لئے رکھوائی گئی ترمیمی دفعہ 58(2)B کا سہارا لے کر اپنی لائی گئی جونیجو حکومت اور 85ء کی اسمبلی کا گلا گھونٹ دیا، جبکہ آئین میں رکھے گئے اس ’’ٹوکہ‘‘ صدارتی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے سول صدر غلام اسحاق خاں نے بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے اقتدار کی بساط الٹائی اور بینظیر بھٹو کے دوسرے دور اقتدار میں ان کے فاروق بھائی (سردار فاروق لغاری) نے یہی ٹوکہ اختیار ان کے خلاف استعمال کیا جس کے بعد میاں نواز شریف نے دوبارہ اقتدار میں آ کر 12ویں آئینی ترمیم کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق صدر کا یہ ٹوکہ اختیار ختم کرایا اس کے باوجود ان کے ساتھ 99ء والا 12اکتوبر ہو گیا اور جنرل پرویز مشرف آئین کو معطل کرکے پہلے چیف ایگزیکٹو اور پھر صدر مملکت بن بیٹھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ بندوق والوں کے آگے آئین قطعی بے بس ہے جبکہ ہمارے ’’پوڈل‘‘ سیاستدانوں نے جرنیلی اقتدار کی شیرینی میں سے اقتداری خیرات کے ٹکڑے وصول کرکے آئین کو جرنیلی آمروں کے ہاتھوں کا کھلونا بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا؟
مشرف سے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ (ن) کے موجودہ اقتدار تک آئین پاکستان 21ترامیم کا بوجھ اٹھا چکا ہے مگر اس کی عملداری آج بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے کہ اس آئین کو ایک نہیں دوبار توڑنے کی دیدہ دلیری کرنے والے جرنیلی آمر مشرف اسی آئین کی موجودگی میں زرداری دور حکومت میں پروٹوکول پا کر دندناتے ہوئے ملک سے باہر گئے اور اب اسی آئین کی موجودگی میں وہ آئین کی جمہوری روح کو بگاڑنے کی تمام تر کوششیں ناکام بنانے کا عہد کرنے والے وزیراعظم میاں نواز شریف کی آنکھوں کے سامنے دندناتے چنگھاڑتے اس وقت ملک سے باہر گئے ہیں جب ان کے خلاف ماورائے آئین اقدام کی بنیاد پر آئین سے غداری کے جرم کا مقدمہ ملک کی اعلیٰ ترین خصوصی عدالت میں زیر سماعت تھا اور فیصلہ کن مراحل سے گزر رہا تھا۔ مجھ تک شریف خاندان کے راستوں سے گزر کر پہنچنے والی اطلاع کے مطابق مشرف کی بیرون ملک روانگی سعودی عرب کی مقدس سرزمین پر وزیراعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف میں طے پانے والے ’’میثاق مدینہ‘‘ کے تحت ممکن ہوئی ہے اور اسی معاہدے کے تحت آرمی چیف کی مدت تین سال سے بڑھا کر چار سال کرنے کا ایک بل بھی آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے پہلے قومی اسمبلی کے کسی اجلاس میں پیش ہو جائے گا۔ اس کے عوض دروغ برگردن راوی، حکمران مسلم لیگ (ن) پنجاب کے معاملات پر نیب میں کھلنے والی فائلیں بند کرانے میں کامیاب ہوئی! تو جناب! آپ جمہوری حکمرانی میں بھی جرنیلی آمریتوں کے راستے نکالیں گے اور بندوق والوں کے ہاتھ مضبوط بنائیں گے تو اس میں بیچارے آئین کا کیا قصور ہے۔ آئین کے پاس بذات خود تو کوئی بندوق، تلوار، لاٹھی نہیں ہوتی کہ وہ اپنا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کرنے والوں کا حلیہ بگاڑ دے۔ آئین کا تحفظ تو بہرصورت انہوں نے ہی کرنا ہے جنہوں نے اس کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ جبکہ پارلیمنٹ آئین کے تحفظ کی ضامن ہے۔ اگر آئین کا حلیہ بگاڑنے والے جنرل مشرف کو پیپلز پارٹی کی پارلیمانی جمہوری حکمرانی میں ملک سے باہر جانے کی پروٹوکول والی سہولت ملی تو موجودہ چیئرمین سینٹ رضا ربانی سمیت اس وقت کی پارلیمنٹ کے تمام ارکان آئین کے تحفظ میں ناکامی پر مستوجب سزا ہیں اور اگر اب آئین کی دفعہ 6کے تحت اسی جرنیلی آمر مشرف کے ٹرائل کی نوبت آنے کے باوجود انہیں ملک سے باہر جانے کی سہولت مل گئی ہے تو بھائی صاحب! اس آئینی دفعہ کا کیا قصور ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری تو گزشتہ روز اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں خالصتاً حکومت کو مشرف کے بیرون ملک فرار کا ذمہ دار ٹھہرا چکے ہیں جبکہ اس فرار کو روکنے میں ناکامی پوری پارلیمنٹ کی بھی ناکامی ہے۔ اگر آئین کے تحفظ کا حلف اٹھانے والے ہی اس آئین کو رگید رہے ہیں تو آئین سے دفعہ 6کو نہیں، پارلیمنٹ سے ان تمام پارلیمنٹیرین خواتین و حضرات کو نکلنا چاہئے جنہوں نے آئین کے تحفظ و پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ اگر ان کا خیال ہے کہ آئینی اقتدار کے بجائے کسی ماورائے آئین اقتدار میں انہیں زیادہ شیرینی مل سکتی ہے تو جناب وہ اپنے خیال میں مست رہیں۔ حلوے مانڈے کھائیں مگر آئین کو بے بس قرار دے کر اس کا مذاق نہ اڑائیں۔ آخر میں اسلام آباد سے محترم متین الدین کی موصول ہونے والی ایک ای میل کا متن پیش خدمت ہے جو انہوں نے میرے گزشتہ کالم کے حوالے سے مجھے بھجوائی ہے۔ ’’شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘
Respected Saeed Aasi sahab,
AoA. I have thrice read your column (published in the Daily Nawa-i-Waqt on April 9, 2016) with tears and shivering body. What else can a patriotic and senior Pakistani do? Nevertheless, I suggest that:
1. Your column (on standard tabloid size paper and large font size) may be widely circulated in the country for creating awareness about the critical present situation.
2. A group of patriotic intellectuals may be brought together to discuss the contents of your column and come up with recommendations for the government's and the civil society's consideration.
I am confident that the nation still has a large number of patriotic people who are capable of facing the current threatening situation.
With best regards,
Muhammad Mateen-ud-Din,
Islamabad