’’آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں‘‘
Apr 09, 2016

اس وطنِ عزیز کے ساتھ اندر اور باہر سے جو کچھ ہو رہا ہے، پھر بھی یہ ملک سلامت ہے اور ہمارا گمان ہے کہ یہ سلامت تا قیامت ہے تو اس کے بدخواہوں کو بھی یقین کر لینا چاہئے کہ یہ ملک خداداد یعنی عطیہ خداوندی ہے۔ ورنہ بھائی ہم نے خود اور ہمارے اغیار نے بھلا کوئی کسر چھوڑی ہے اس کی بنیادیں ہلانے اور اسے دنیا کے نقشے سے غائب کرانے میں؟ ارے خدا کی پناہ۔ حکمران خاندان کے فرزند فخریہ انداز میں بتا رہے ہیں کہ انہوں نے تو بیرون ملک اپنے کاروبار کی خاطر پاکستان کو 1994ء سے خیرباد کہہ دیا ہوا ہے۔ اسی ملک کو جس نے انہیں اور ان کے سارے خاندان کو عزت دی، شہرت دی، اقتدار دیا اور متمول کاروبار کے قابل بنایا، اس کی پاسداری کا انہیں اتنا سا بھی احساس نہیں کہ اس کی بدولت حاصل کئے گئے سرمایہ کو یہیں پر کاروبار کے لئے بروئے کار لے آئیں تاکہ اس ملک کی معیشت کے استحکام اور عوام کی خوشحالی میں ان کا بھی کچھ حصہ شامل ہو جائے۔ مگر یہ ملک خداداد ہے اور یہی سوچ کر اسے نوچنے، چچوڑنے والے حکمران اشرافیہ طبقات اس کے استحکام کی ذمہ داریاں خود پر فرض نہیں سمجھتے کہ ملک خداداد کی ذاتِ باری تعالیٰ خود حفاظت کر رہی ہے۔

اور جناب باہر سے تو پورا تماشہ لگا ہوا ہے۔ کوئی غیر اغیار ہو یا دوست و خیرخواہ، جسے دیکھو وہ کدالیں اٹھائے اس ملکِ خداداد کی جڑیں کاٹنے اور بنیادیں ہلانے کے لئے لپکا پڑ رہا ہے، ہمارے پڑوسی بھارت سے تو اس وطن عزیز کا وجود کبھی برداشت ہو گا ہی نہیں کہ یہ اس کے اکھنڈ بھارت کے خوابوں کو چکنا چور کرکے اس کی کوکھ میں سے نکلا ہے۔ سو اس سے پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کا نہ سوچنے کی کبھی توقع رکھی ہی نہیں جا سکتی۔ وہ اس کے لئے خود بھی کسی سازشی منصوبے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا اور پاکستان کے دوستوں کو بھی اس سے برگشتہ کرنے کے راستے نکالتا رہتا ہے۔ دو ہفتے قبل اس کی ایجنسی ’’را‘‘ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی بلوچستان سے گرفتاری عمل میں آئی تو اس کے سازشی منصوبے کی کڑیاں کھلتے کھلتے کہیں سے کہیں کی خبر نکال رہی ہیں۔ ڈیفنس لاہور سے وطن عزیز کی سلامتی کے لئے فکرمند اور نوائے وقت کے ایک دیرینہ دردمند قاری محمد رفیق چودھری نے کشمیر سنگھ اور کلبھوشن سے متعلق میرے ایک گزشتہ کالم پر خون کے آنسو روتے ہوئے اپنے مراسلہ میں وطن عزیز کو چمٹی جونکوں کے حوالے سے اپنے کچھ شواہد اور یادداشتیں میرے ساتھ شیئر کی ہیں۔ ان کا یہ درد میرے دل میں بھی گھر کر گیا ہے کہ ’’میں ان چند لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے پاکستان بنتے اور پھر اپنے آپ کو اجڑتے دیکھا ہے‘‘ ان کا یہ دکھ بھی سانجھا نظر آتا ہے کہ وطنِِ عزیز کو قائداعظم کے بعد کوئی مخلص لیڈر نہیں ملا۔ جی ہمیں قائد کی رحلت کے بعد قائد کے پائے کا کوئی لیڈر ملا ہوتا تو خطے کے ممالک ہمارے ہمدم اور ہمقدم ہوتے، ہماری سلامتی تاراج کرنے کی بھارتی سازشوں میں کبھی اپنا حصہ ڈالتے نظر نہ آتے مگر ہمارے تو اپنے لیڈران بھارتی سازشوں میں حصہ دار بنے بیٹھے ہیں۔ کاروبار کے لئے ترجیح اپنا وطن نہیں، سعودی عرب، برطانیہ، امریکہ اور دوسرے ممالک ہیں تو یقیناً بھارت بھی ہمارے حکمران طبقات کی کاروباری ترجیحات میں شامل ہو گا جبھی تو اس کے جاسوسوں کو یہاں پروٹوکول مل جاتا ہے اور جبھی تو بھارتی جارحانہ عزائم کے دیدہ دلیری والے اظہار پر بھی خواہش اس کے ساتھ دوستی پر کوئی حرف نہ آنے دینے کی مچلتی رہتی ہے۔ ہماری قومی خارجہ پالیسی مضبوط اور مربوط ہوتی تو آج بھارت کو ہمارے برادر پڑوسی ملک ایران کی سرزمین ہمارے راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے استعمال کرنے کی بھلا جرات ہوتی اور برادر سعودی حکمران بھارت کے جنونی پاکستان اور مسلمان دشمن وزیراعظم مودی کو مخصوص حالات میں اچانک سعودی عرب بلا کر انہیں اعلیٰ ترین پروٹوکول اور اپنے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازنے کا سوچ بھی پاتے؟ ہمارے ’’پوڈلز‘‘ نے تو ہمیں بیچ چوراہے میں لا پھینکا ہے جہاں سے ہر گزرنے والا بلاامتیاز ہمیں لات، گھونسہ، تھپڑ رسید کرکے گزرنا ضروری سمجھ رہا ہے۔

کلبھوشن یادیو کی کارستانیوں نے ہماری سالمیت کے خلاف کیسے کیسے نادر اور غیر فطری اتحاد بنے ہوئے دکھا دئیے ہیں۔ گوادر پورٹ سے دنیا کو ملانے والی ہماری اقتصادی راہداری پر بھارت کی تو نظر تھی کہ اسے اس سے پاکستان اور چین کی یکجہتی مضبوط ہوتی نظر آ رہی تھی جبکہ وہ اسلام آباد اور بیجنگ کو بیک وقت 90,80 گھنٹے میں ٹوپل کرنے کی گزشتہ پانچ چھ سال سے زہریلی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے۔ بھارت نے پہلے اس کے توڑ کے لئے چاہ بہار پورٹ میں ایران کی معاونت کی اور پھر اس کی تعمیر مکمل کرکے افغانستان اور دوسرے ممالک کو گوادر پورٹ سے نظریں ہٹانے اور چاہ بہار پورٹ کی جانب متوجہ ہونے کے لئے قائل کرنا شروع کر دیا جو پاکستان توڑنے کی تحریک میں عملی حصہ لینے والے نریندر مودی کی زندگی کی شائد اب آخری خواہش ہو گی۔ انہوں نے اپنے ملک کی اپنے تئیں پائیدار حکمت عملی طے کی اور افغان صدر اشرف غنی کو اچانک دہلی مدعو کر کے انہیں افغانستان پر اپنی نوازشات کے خزانے کھلتے دکھائے اور گوادر پورٹ سے بھٹکاکر چاہ بہار پورٹ کا راستہ دکھا دیا۔ کرزئی تو عملاً امریکہ اور بھارت کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کا بیر نکالتے رہے مگر مودی نے اشرف غنی کے منہ میں بھی کرزئی کی زبان ڈال دی اور پھر بھارت کے لئے ’’ستے خیراں‘‘۔ اس نے گوادر پورٹ اور پاکستان کی اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کے لئے بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن کی خدمات حاصل کیں جس نے ’’را‘‘ کے سازشی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بلوچستان سے افغانستان اور ایران کی چاہ بہار پورٹ تک ’’را‘‘ کا نیٹ ورک پھیلا دیا۔ کیا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان اور ایران کی آشیر باد کے بغیر کلبھوشن کو ’’را‘‘ کے نیٹ ورک کے لئے ان دونوں ممالک کی سرزمین استعمال کرنے کی سہولت ملی ہو گی؟ یہ تو ہمارے قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ سے پوچھئے کہ انہیں پاکستان کی سرحد سے بھارت داخل ہونے والے دس دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا تو بخوبی علم تھا مگر افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن اور اس کے ساتھیوں کی گزشتہ دو اڑھائی سال سے جاری سرگرمیوں کا انہیں شائبہ بھی نہ گزر پایا۔ اب کلبھوشن کے بعد اس کا ساتھی دوسرا بھارتی جاسوس اور ایک افغان جاسوس بھی پکڑا گیا ہے تو اس سازشی منصوبے میں بھارت کے ساتھ ایران اور افغانستان کی ملی بھگت بھی کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ جو چاہ بہار پورٹ سے استفادہ کے مشترکہ مفادات پر مبنی ہے۔

اور پھر یہ کیا حکمت تھی کہ ایران کے صدر حسن روحانی اسلام آباد کے دورے پر آئے تو عین اسی روز کلبھوشن کی گرفتاری کا اعلان کر کے چاہ بہار پورٹ ایران میں موجود اس کے نیٹ ورک کی تفصیلات بھی اس کے اعترافی بیان کی روشنی میں جاری کر دی گئیں چنانچہ ایرانی صدر پاکستان اور ایران کی سلامتی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی دکھاتے دکھاتے کلبھوشن کے بیان کردہ ’’را‘‘ کے چاہ بہار پورٹ والے سازشی نیٹ ورک پر وضاحتیں پیش کرنے کی مجبوری تک آ گئے۔ یہ موقع ایران مخالف سعودی اسلامی اتحاد میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے ایران کی غلط فہمیاں دور کرنے کا تھا مگر ہماری ’’حکمت‘‘ سے ایران کو لینے کے دینے پڑ گئے اور اگر ہماری یہ حکمت سعودی عرب کو مزید وفاداری کا ثبوت پیش کرنے کی تھی تو اس کا برادر سعودی عرب نے ہمیں کیا جواب دیا؟ ارے توبہ! مفادات کے ماتے ایسا بھی گل کھلا سکتے ہیں؟ ہمارے مسلم برادر ہڈ والے برادر مکرم نے ایرانی صدر کو پاکستان مدعو کرنے کا بدلہ کٹر مسلم دشمن مودی کو ہنگامی بنیادوں پر سعودی عرب مدعو کر کے چکایا۔ سعودی عرب میں جو کچھ ان کی عزت افزائی ہوئی اس کی داستانیں سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ تو کیا ایسا ہی ہے کہ

تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں پر‘‘

بے شک ہمارا وطن عزیز ملک خداداد ہے اور میرے یقین کے مطابق قیامت تک رہنے کے لئے بنا ہے مگر اس وطن عزیز کی سلامتی کے ضامن حکمرانوں نے اپنے کاروباری مفادات پر اپنی حکمت و تدبر والی پالیسی اختیار کر کے پاکستان کے دوستوں کو بھی اس کے دشمن کا دوست بنا دیا ہے تو محمد رفیق چودھری دسمبر 1971ء کے سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد مجھے ’’نیوز ویک‘‘ کے اداریہ کی جھلک بھٹو کے کردار کے حوالے سے دکھا رہے ہیں۔ میں اب پاکستان مخالف سازشوں میں کس کے کردار کی جھلک دکھائوں؟

آ عندلیب مل کے کریں آہ زاریاں
تو ہائے گل پکار تو میں بولوں ہائے دل
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com