بیربل شریف میں دو سال بعد میری حاضری ہوئی تو وہاں کی محبوب شخصیت پروفیسر محبوب حسین کے ادارے معین الاسلام کو مزید پھلتا پھولتا پایا۔ اس ادارے کے زیر اہتمام دو مزید درسگاہیں اس علاقے میں دینی اور دنیاوی علم کا نور بکھیرنے کی ذمہ داریاں سنبھال چکی ہیں، ایک مزید تعلیمی ادارے کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے جس کے لئے علاقے کی ایک آسودہ فیملی نے ساڑھے سات ایکڑ اراضی مختص کی ہے اور اسی طرح اس فیملی کے دوسرے عزیزوں کی جانب سے بھی دس ایکڑ اراضی درسگاہ کی تعمیر کے لئے ادارہ معین الاسلام کے حوالے کی جا چکی ہے۔ علم کا نور پھیل رہا ہے اور ضلع سرگودھا ہی نہیں دور دراز کے علاقوں کے بے وسیلہ گھرانے بھی اپنے بچوں کے لئے علم کے اس نور سے بلامعاوضہ فیض یاب ہو رہے ہیں جنہیں تعلیم ہی نہیں، ہوسٹل اور کھانے کی سہولت بھی بلامعاوضہ دستیاب ہے۔ میری دو سال قبل اس ادارے میں حاضری ہوئی تو ایک ہزار کے قریب بچوں کو اس ادارے میں فیض یاب ہوتا دیکھ کر دینی مدارس کے بارے میں اسلام دشمن قوتوں اور عناصر کے پھیلائے اس متعصبانہ پراپیگنڈہ کے باطل ہونے کا یقین آ گیا کہ یہ ادارے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے کر دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے حکمران طبقات بھی اس مخصوص ایجنڈے والے پراپیگنڈے سے مرعوب ہو کر ہر دینی مدرسے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے۔ اگر آپ لوگوں نے ادارہ معین الاسلام بیربل شریف کا مشاہدہ کر لیا ہو اور اس طرح کے دوسرے دینی مدارس کی جانب تھوڑی سی توجہ مبذول کر لی ہو تو یہ ادارے آپ کے فروغ تعلیم والے سیاسی نعرے کی عملی تصویر بنے نظر آئیں اور وہ بھی بغیر کسی سرکاری سرپرستی اور اعانت کے۔ مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ادارہ معین الاسلام کے ماتحت قائم مدارس میں دینی نصاب کے علاوہ سائنس اور آرٹس کی دنیاوی تعلیم بھی تمام سہولتوں کے ساتھ فراہم کی جا رہی ہے اور ان مدارس کے بچوں کو سرگودھا سیکنڈری بورڈ اور سرگودھا یونیورسٹی میں نمایاں مقام حاصل ہو رہا ہے۔ ان مدارس کے گزشتہ پانچ سال کے نتائج کا جائزہ لیں تو سو فیصد پاس بچوں میں غالب اکثریت فرسٹ ڈویژن اور بورڈ اور یونیورسٹی میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے بچوں کی نظر آئے گی۔ اگر یہ مدارس آج بے وسیلہ خاندانوں کے بچوں کی صلاحیتوں کو اُجاگر کر کے انہیں پرائمری سے اعلیٰ تعلیم کے تمام مراحل میں سرخرو کر رہے ہیں اور پورے اعتماد کے ساتھ ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کی کھیپ کی کھیپ نکال رہے ہیں تو یہ مدارس دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں یا حکمرانوں کے نظر انداز کئے گئے بے وسیلہ طبقات میں علم کی شمع کو روشن کر کے فی الواقع پڑھے لکھے معاشرے کی بنیاد مستحکم کر رہے ہیں؟
دو روز قبل میں نے ادارہ معین الاسلام کے مین کیمپس میں سالانہ تقریب تقسیم اسناد و ایوارڈ میں بچوں کے جس نظم و ضبط کا مشاہدہ کیا اور ان میں تعلیم کی لگن کے ساتھ مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ تنومند پایا تو مجھے یقین ہو گیا ہمارے مستقبل کے معماروں کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے اور انہیں زیور تعلیم سے محروم رکھنے کے لئے ملک دشمنوں اور تعلیم کو کاروبار بنانے والے مفاد پرست طبقات کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ آج معیاری تعلیم کے نام پر ہمارے معاشرے میں دُہرے نظام تعلیم کی بنیاد رکھنے اور مجبور والدین سے پرائمری سے او لیول تک عملاً لاکھوں روپے بٹورنے والے مفاد پرست عناصر سکیورٹی انتظامات کے نام پر اپنے اداروں کی فیسوں میں مزید بے مہابا اضافے کے لئے اقتدار کے ایوانوں سے ٹکرانے پر بھی کمربستہ نظر آ رہے ہیں اور حکمرانوں کی جانب سے سرکاری تعلیمی اداروں کے نظرانداز ہونے کے باعث ان اداروں کی کسمپرسی سے فائدہ اٹھا کر تعلیم کو بھی بازاری جنس بنانے والے یہ منافع خور طبقات اسی لئے بلیک میلنگ کی پوزیشن پر آئے ہیں کہ والدین کو تعلیم کا کوئی متبادل نظام نظر نہیں آتا۔ آج ان طبقات کی لوٹ مار کا حکومت کو بھی احساس ہوا ہے تو پرائیویٹ سیکٹر کے ان نام نہاد معیاری تعلیمی اداروں اور ادارہ معین الاسلام جیسے دینی مدارس کے معیار تعلیم کا موازنہ کر لیں، آپ کو کاروباری تعلیمی اداروں کی بلیک میلنگ سے عوام کو نجات دلانے میں خاصی مدد مل جائے گی۔ ذرا جائزہ لے لیجئے کہ معیاری تعلیم کا ڈھنڈورا پیٹنے والے نجی سیکٹر کے تعلیمی اداروں نے کتنے پی ایچ ڈی، کتنے ایم فل، کتنے ڈاکٹر، کتنے انجینئر اور کتنے دوسرے شعبوں کے ماہر پیدا کئے ہیں جو معمارانِ قوم کی صورت میں اجاگر ہوئے ہوں۔ یہ ادارے تو اعلیٰ پوزیشنوں کے لئے تعلیمی بورڈوں اور یونیورسٹیوں سے ملی بھگت کر کے اور بھاری فیسوں والی ٹیوشن کی اکیڈمیوں کو فروغ دے کر بھی مجموعی طور پر وہ نتائج سامنے نہیں لا سکے جو ادارہ معین الاسلام جیسے دینی مدارس بلامعاوضہ تعلیم دے کر تعلیمی بورڈوں اور یونیورسٹیوں میں دکھا رہے ہیں۔ اگر یہ بھاری فیسیں بٹور کر اور زیر تعلیم بچوں کو عملاً ذہنی مریض بنا کر بھی تعلیم کے شعبہ میں وہ نتائج نہیں دے رہے جو پسماندہ دیہات و مواضعات میں انتہائی کم وسائل میں علم کا نور پھیلاتے ہوئے دینی مدارس کے ذریعے قوم کو حاصل ہو رہے ہیں تو ان دینی مدارس کا گلہ گھونٹنا چاہئے یا استحصالی تعلیمی نظام کی بنیاد رکھنے والے کاروباری طبقات کو ضرب لگانی چاہئے؟
اول تو آج حکومت کے پاس موقع ہے کہ وہ نظرانداز کئے گئے سرکاری تعلیمی اداروں کی جانب توجہ دے کر ان کے ذریعے ملک میں یکساں نظام تعلیم کو رائج کر دے اور معیاری تعلیم کے نام پر معاشرے کے بچوں کے ذہن خراب اور ان کے والدین کو بلیک میل کرنے والے تعلیم کے سوداگروں سے نجات دلا دے۔ اگر حکومت کے لئے اپنے دوسرے بکھیڑوں کے باعث سرکاری تعلیمی اداروں کی کسمپرسی دور کرنا ممکن نظر نہیں آتا تو پھر جانچ پرکھ کر ادارہ معین الاسلام جیسے دینی مدارس کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرکے ان کا پورے ملک میں نیٹ ورک قائم کرنے کی راہ ہموار کریں۔ یہ ادارے دینی مدارس کے بارے میں اسلام دشمن قوتوں کے زہریلے پراپیگنڈے کا بھی توڑ ہیں اور تعلیم کے سوداگروں کا خمار توڑنے کے لئے ان پر عمل کے نور سے کاری ضرب لگانے کے بھی اہل ہیں تو آج آپ کے پاس معاشرے کے ہر فرد اور ہر گھر تک علم کی روشنی کی کرنیں پہنچانے کا نادر موقع موجود ہے۔ فروغ تعلیم کے محض نعرے نہ لگائیں اور اس پر محض سیاست نہ کریں بلکہ جو ادارے اس کے لئے آپ کے حقیقی معاون ہو سکتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کریں۔ پھر دیکھیں معاشرے کے چلن میں کتنا سدھار آتا ہے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ آزمائیے اور نتیجہ لیجئے۔