’’وعدہ معاف گواہ‘‘
Feb 02, 2016

قانون نے یہ سہولت استغاثہ کو دی ہے کہ وہ اپنے کیس کے اصل ملزم کے خلاف جرم ثابت کرنے کے لئے کسی دوسرے ملزم یا ملزمان کو وعدہ معاف گواہ بنا کر ان کی اصل ملزم کے جرم میں اعانت کی ان کے اقبالی بیانات کے ذریعے تصدیق کرائے اور اس کی بنیاد پر اصل ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی راہ ہموار کر دے۔ استغاثہ نے کسی پر کیس بنانے کے لئے ’’مخبروں‘‘ کی خدمات حاصل کر رکھی ہوتی ہیں اور کیس ثابت کرنے کے لئے کبھی کبھار اسے ملزمان میں سے کسی کو اپروور (وعدہ معاف گواہ) بنانے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے اس طرح اپروور درحقیقت سہولت کار ہوتا ہے جو کسی کمزور کیس کو کسی ملزم کے خلاف مضبوط بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے صلہ میں استغاثہ اسے متعلقہ مقدمہ سے نکال دیتا ہے تاہم یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ کو جو درحقیقت متعلقہ مقدمے میں ملزم ہوتا ہے۔ استغاثہ کی جانب سے اس کے ساتھ کئے گئے وعدے کے مطابق اعتراف جرم کے باوجود مقدمے سے نکال دے یا اس کے اعترافِ جرم کی بنیاد پر اسے سزا سُنا دے، اس طرح وعدہ معاف گواہ کا مستقبل متعلقہ ٹرائل کورٹ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے جیسے 1977ء میں نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمہ میں ملوث ایف ایس ایف کے پانچ افسران اور اہلکاروں بشمول ڈی جی ایف ایس ایف مسعود محمود اور ڈپٹی ڈائریکٹر غلام عباس کو وعدہ معاف گواہ بنایا گیا جنہوں نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف گواہی دی کہ انہوں نے نواب محمد احمد خاں کو ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر قتل کیا اور کرایا تھا، یہ گواہی ان کے اقبالی بیانات کی صورت میں دی گئی جن کے ذریعے انہوں نے خود بھی اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ چنانچہ اس کیس میں ٹرائل کورٹ بنائے گئے اور لاہور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر کے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ایف ایس ایف کے اہلکار چار وعدہ معاف گواہوں کو بھی موت کی سزا سُنا دی، صرف مسعود محمود کو کیس سے باہر نکالے جانے کی رعایت ملی جنہوں نے اپنی باقی ماندہ ساری زندگی جلاوطنی میں گزار دی۔

اس کیس کے فیصلہ کے بعد کوئی ملزم سوچ سمجھ کر ہی وعدہ معاف گواہ بنتا ہے کیونکہ اس صورت میں اسے اپنے جرم کا اعتراف بہر صورت کرنا ہوتا ہے جس سے اصل ملزم کے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈالنا آسان ہو جاتا ہے مگر اعتراف جرم کی بنیاد پر یہ پھندہ وعدہ معاف گواہ یا گواہوں کے گلے میں بھی پڑ سکتا ہے۔ آج لیاری گینگ کراچی کے سرغنہ عزیر بلوچ کو گرفتار کر کے اس سے اس کے گھنائونے جرائم کا اعتراف کرایا گیا ہے تو پیپلز پارٹی کی صفوں میں کھلبلی پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے اور شنید یہی ہے کہ عزیر بلوچ کی بھتہ، تاوان اور قتل کی اعتراف کردہ وارداتوں کا ملبہ بالآخر ان جرائم میں پیپلز پارٹی کے قائد اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری پر ہی ڈالا جائے گا جس کیلئے عزیر بلوچ کو وعدہ معاف گواہ بنائے جانے کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔ مگر جن گھنائونے جرائم کا اعتراف عزیر بلوچ نے کسی قانونی سہولت کی یقین دہانی پر اپنے اقبالی بیان کے ذریعے کیا ہے، عزیر بلوچ کو ان تمام جرائم سے نکال کر کیا اسے سرکاری ’’سانڈ‘‘ کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جائے گا جسے کسی بھی کھیت میں منہ مارنے اور اس کی فصل کو اجاڑنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہوتی ہے اور کھیت کا مالک اپنے نقصان کی تلافی کے لئے قانون اور انصاف کے کسی فورم پر رجوع نہیں کر سکتا۔ بھتہ خوروں، لینڈ مافیا اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف گزشتہ اڑھائی سال سے جاری رینجرز کے ٹارگٹڈ اپریشن کا اگر یہی نتیجہ نکلنا ہے کہ سرکاری زمینوں پر قبضے، بھتے کی رقم پولیس افسروں اور سیاسی شخصیات کو پہنچانے، ایک اہم سیاسی رہنما (نام لئے بغیر بھی شخصیت اجاگر ہو جاتی ہے) کو سرکاری گاڑی میں اسلحہ فراہم کرنے، بعض سیاسی رہنمائوں کو ملک سے باہر فرار ہونے میں مدد دینے اور ایک دو نہیں، اکٹھے چار سو افراد کو قتل کرنے کے اعتراف شدہ جرائم میں ملوث ایک سنگدل اور وحشی مجرم کو محض اپنے کسی سیاسی مخالف کو دبائو میں رکھنے اور مجرم بنانے کے صلہ میں اس کے سارے گھنائونے جرائم سے بری الذمہ قرار دے دیا جائے تو بھائی صاحب! اس اپریشن کی شفافیت، غیر جانبداری اور اس کے بلا امتیاز ہونے کا دعویٰ دھرے کا دھرا رو جائے گا۔ اسی اپریشن کے دوران ایک اور سیاسی پارٹی ایم کیو ایم متحدہ کے قائد الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کے بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کے جرائم ثابت کرانے کے لئے صولت مرزا نامی ایک ملزم کو وعدہ معاف گواہ کی حیثیت اس کی پھانسی کی سزا سُنائے جانے کے بعد دی گئی جس کی بنیاد پر اس کی سزا پر عملدرآمد مؤخر ہوتا رہا مگر بالآخر اسے تختہ دار پر لٹکنا پڑا کیونکہ اس کی گردن سے پھانسی کا پھندہ سرکا دیا جاتا تو بلاامتیاز اپریشن پر کسی کو یقین دلانا ناممکن ہو جاتا۔ صولت مرزا نے اپنے گھنائونے جرائم میں جن لوگوں کو شریک کار ٹھہرایا ان پر قانون کی عملداری ابھی تک گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوتی نظر آتی ہے تو پھر صولت مرزا بھی کسی کے سیاسی مفادات کی ہی بھینٹ چڑھا ہے جبکہ قانون اور انصاف کی کسی مجرم کے ساتھ ہرگز مفاہمت نہیں ہونی چاہئے ورنہ قانون و انصاف کی حکمرانی کا تصور ہی بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔

کچھ ایسا ہی معاملہ اب عزیر بلوچ کا بھی بنا نظر آتا ہے جس کے بارے میں ایک سال قبل بھی یہ اطلاعات زیر گردش رہیں کہ اسے دبئی سے حراست میں لے کر پاکستان لایا جا چکا ہے اور اس نے آصف علی زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر اپنے سارے اعتراف کردہ جرائم میں انہیں بھی ملوث کر دیا ہے مگر اس کے بعد یہ سارے قصے کہانیاں اچانک منظر سے غائب ہو گئیں۔ ثابت ہوا کہ اس ساری ’’موو‘‘ کا مقصد اپنے ہدف کو سیاسی دبائو میں لانے کا تھا جو زرداری صاحب کو مستقل طور پر ملک سے باہر رہنے پر مجبور کرنے کی صورت میں حاصل کیا گیا جبکہ عزیر بلوچ کو منظر سے ہٹا کر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو پیش منظر بنا دیا گیا تاکہ زرداری صاحب کے سر پر خوف کی تلوار مسلسل لٹکتی رہے۔
میرا ہی نہیں، پوری قوم کا یہی تجسّس ہے کہ اپنے جائز ناجائز اختیارات یا اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر جس نے بھی جو بھی جرم سرزد کیا ہے، اس کے معاملہ میں کسی رو رعائت سے کام لینے یا اپنی کسی سہولت کی خاطر اسے قانون و انصاف سے بچانے کی سہولت دینے کے بجائے اس پر قانون و انصاف کی عملداری لاگو کی جائے اور اس کے جرم کی جو قانونی سزا ہے اس پر عملدرامد ہو جائے، اگر آج بھی مقصد کسی کے جرائم کی سزا کو لاگو کرنے کے بجائے اسے اپنے مقاصد کے لئے محض دبائو میں رکھنے اور مقصد پورا ہونے پر اس کے جرائم پر پردہ ڈالنے کا ہے تو معاف کیجئے! بے لاگ اور بلاامتیاز اپریشن کے تصور کا ’’پُھلکا‘‘ ہَوا میں اُڑ جائے گا۔ اس لئے عزیر بلوچ کو محض کسی اور کے لئے پھانسی کے پھندے کا ذریعہ نہ بنایا جائے، اس نے جن گھنائونے جرائم کا کسی ایجنسی کی تحویل میں اعتراف کیا ہے وہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں، ان میں اس کی معافی کی گنجائش ہرگز نہ نکالی جائے اور اس کے بیان پر سیاست کرنے کے بجائے اس کے خلاف چالان فی الفور متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش کر دیا جائے تاکہ وہ قانون و انصاف کی تحویل میں آ کر اپنے کردہ گناہوں کی سزا بھگتے اور دوسروں کے لئے عبرت کی مثال بنے۔ اسی طرح اس کے اعتراف کردہ جرائم میں کوئی اور بھی ملوث ہے تو اس کا معاملہ بھی اسے محض دبائو میں رکھنے کے حربے استعمال کرنے کے بجائے انصاف کی عدالت پر چھوڑ دیا جائے، کوئی مجرم ہے تو اپنے کئے کی سزا بھگتے ورنہ معاشرے سے گند کی صفائی اور جرائم کی بلاامتیاز سرکوبی کے سارے دعوے سیاسی جگلری کے سوا اور کوئی تشخص نہیں بنا پائیں گے۔ اب عزیر بلوچ کی گرفتاری اور اس کے اعترافی بیانات سے اصل آزمائش کس کی شروع ہوئی ہے۔ یہ کوئی معمہ نہیں۔ بس آزمائش پر پورا اتریں، سیاست نہ کریں۔ آپ کو اپنے حق میں ستائشی بینر لگوانے اور جلوس نکلوانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔

    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com