ثالثی کے بکھیڑوں میں ہم عوام کی بے بسی
Jan 26, 2016

ہم بس اپنے گھر کی ہی خبر نہیں رکھتے ورنہ تو ہم بڑے بڑے کام کر لیتے ہیں۔ ہمیں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک تو امریکہ کی سلامتی کی فکر ہی لاحق رہی، اس کی خاطر اس کا فرنٹ لائین اتحادی بنے، اپنا حشر نشر کر لیا، امریکہ کی سلامتی کے درپے دہشت گردوں کو اپنی سرزمین کا راستہ دکھا دیا اور

’’آپ کا شوق سلامت رہے شہر اور بہت‘‘ کے مصداق خود کو اجاڑتے، برباد کرتے رہے مگر امریکی سلامتی پر کوئی حرف نہ آنے دیا۔ اس کے ڈرون حملوں نے ہماری دھرتی کا سینہ چھلنی کیا، اس کے ایبٹ آباد اپریشن نے ہماری خود مختاری پر کئی سوالیہ نشان لگائے، اس کے سلالہ چیک پوسٹ پر وحشیانہ حملے نے ہماری سکیورٹی کی صلاحیتوں کا چار دانگ عالم میں بھانڈہ پھوڑا، ہم نے وقتی طور پر اس کی نیٹو سپلائی کا راستہ روک لیا مگر پھر اسی کے ہو رہے۔ اس نے ہماری سرزمین پر آرمی پبلک سکول اور اب باچا خان یونیورسٹی جیسی سفاکانہ اور خون آشام دہشت گردی پر ہمارے لئے کبھی اپنے دل میں درد محسوس نہ کیا۔ ہماری سرزمین پر جاری بھارتی تخریبی سرگرمیوں کے ٹھوس ثبوت پا کر بھی کبھی بھارت سے احتجاج نہیں کیا اور اس سے اپنے دہشت گرد پاکستان بھجوانے کا سلسلہ روکنے کا کبھی تقاضہ نہیں کیا مگر ہم نے اس سے شکوہ کرنا تو ایک جانب کبھی بھارت کی جانب بھی تیوڑی پر بل ڈال کر نہیں دیکھا بلکہ نرم و ملائم لہجہ میں اس کے ساتھ دوستی اور پُرامن تعلقات کی خواہش کا ہی اظہار کرتے رہے ہیں۔ سو آج اوبامہ اپنے اقتدار کی سیڑھی کے ’’آخری سٹیپ‘‘ پر کھڑے ہماری جانب خوانخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے اور باچا خان یونیورسٹی کی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد پا کر بھی یہ تقاضہ کر رہے ہیں کہ بھارت کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے سے باز رہو اور دہشت گردی کے خاتمہ کے خلوص کے ساتھ اقدامات اٹھائو تو بھائی صاحب! اپنے چھوڑ کر دوسروں کے معاملات سلجھانے کے ہمارے شوق نے ہمیں یہی دن دکھانا تھا۔

اپنے گھر میں لگی دہشت گردی کی آگ کو بجھانے کی سنجیدگی دکھانے کے بجائے ہمارے جمہوری سلطان سعودی عرب اور ایران میں مصالحت کرانے نکل کھڑے ہوئے اور عملاً اپنا سارا جھکائو سعودی عرب کی جانب کر دیا مگر آج اسی سعودی عرب کی جانب سے ہمیں ’’چاچا خواہ مخواہ‘‘ بننے کے شوق کے جواب میں یہ آئینہ دکھا دیا گیا ہے کہ ایران سے کشیدگی دور کرانے کے لئے پاکستان کوئی ثالثی نہیں کر رہا بلکہ کچھ اور ممالک سے ثالثی کی پیشکش آئی ہے۔ تو اس ’’ثالثی‘‘ میں عزتِ سادات بھی گئی کی تصویر بنتی دیکھ کر ہی کم از کم یہ احساس کر لیا جائے کہ ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیر تُو‘‘ ۔ مگر ہمیں تو چسکا ہی گھر پھونک تماشہ دیکھنے کا پڑا ہوا ہے۔ ہم نے تو خود کو اجاڑ کر دوسروں کے معاملات ہی سلجھانے ہیں۔ چاہے کوئی مانے یا نہ مانے ہم نے دوسروں کے امن و آشتی کے غم میں خود کو جلانا ہی جلانا ہے۔ چاہے اس کے صلے میں ان کی طرف سے دشنام طرازی کی شکل میں ہی ہماری تواضع کیوں نہ کی جائے۔

اور اپنے گھر کی کیا حالت ہے جائزہ لیں تو ناصر کاظمی کا شعر کچوکے لگاتا نظرآتا ہے

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

مجھے وقت ٹی وی کے صبح کے پروگرام میں شرکت کے لئے جلدی آفس آنا تھا مگر صبح اٹھا تو بجلی تھی نہ گیس، گیزر بند، پانی نایاب، مگر جناب دل ہے پھر بھی پاکستانی۔ یہ کوئی آج کا تو نہیں، روزمرہ کا معمول ہے، بغیر بجلی، گیس کے اس کے بھاری بل ادا کرو۔ جیسے ویٹر ایک گاہک کے بارے میں ہانک لگا کر ہوٹل کے مالک کو اس کا بل بنانے کی تفصیل بتاتا ہے کہ ’’صاحب کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا، بارہ آنے‘‘ ۔ یہاں تو خوراک گلے کے نیچے اُترنے کی نوبت بھی نہیں آتی اور ’’گلاس‘‘ بھی نہیں ٹوٹتا پھر بھی بجلی، گیس، پانی کے بل ہیں کہ ناقابل برداشت حد تک بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ بیرونی منڈیوں میں تیل پانی سے بھی سستا ہو جاتا ہے اور ہمیں خود بھی عالمی منڈیوں سے پانی سے بھی سستے داموں تیل مل رہا ہے مگر ہم عوام کو مجال ہے تیل کی اس ارزانی سے فائدہ اٹھانے دیا گیا ہو جبکہ تیل کے نرخ بڑھنے سے دوسری اشیاء اور فی یونٹ بجلی، پانی گیس کے نرخوں میں جو اضافہ کیا گیا وہ بدستور اپنی جگہ پڑ ٹکا ہوا ہے۔ کسی کو یہ اضافی بوجھ عوام کے سروں سے اتارنے اور انہیں تھوڑا بہت ریلیف دینے کا خیال نہیں آیا۔ آئین میں یہ لکھ کر تو ہم عوام کو باوقار بنا دیا گیا ہے اور مطمئن کر دیا گیا ہے کہ ہر شہری کی جان مال کی حفاظت اور اس کی صحت، تعلیم، روزگار کی ساری ذمہ داری ریاست کی ہے مگر عملاً ہم عوام ریاست کا یہ تقاضہ پورا ہونے کی خواہش پالتے پالتے راندۂ درگاہ ہو چکے ہیں اور ’’عمر بھر رینگتے رہنے کی سزا سے جینا‘‘ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ بھاری تعلیمی اخراجات اٹھا کر اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود ہماری نوجوان نسل اچھی تو کیا، چھوٹی موٹی ملازمت کو بھی ترس رہی ہے، وہ بھی پریشان اور ان کے والدین بھی پریشان۔ پھر بھی حکمرانی سلامت ہے اور گورننس کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ اور صحت کا معاملہ تو اتنا بگڑ چکا ہے کہ سندھ کے صحرا تھر میں بھوک، پیاس، غربت وحشت بنی ناچ رہی ہے، علاج اور خوراک کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہ ہونے کے باعث روزانہ بیسیوں کی تعداد میں نومولود اور شیرخوار بچے موت کی آغوش میں جا رہے ہیں مگر سندھ کے حکمرانوں نے بدستور بے نیازی کی چادر تان رکھی ہے جو عوام کی اس محرومی کا خود کو ذمہ دار سمجھنے کے بھی ذمہ دار نہیں۔ اور پھر ہمارے صوبے پنجاب میں میٹرو اور اورنج ٹرین منصوبے تو ماشاء اللہ بہت پھل پھول رہے ہیں مگر یہاں بھی سوائن فلو کی وبا وبال جان بن کر شہریوں کی جانیں لے رہی ہے تاہم اس کی ذمہ داری محکمہ صحت پر پڑتی ہے تو اس کے ذمہ داروں کی جبین نیاز شکنوں سے لبریز نظر آتی ہے اور پھر مزاج شاہی بھی بگڑ جاتا ہے۔ آپ کمیشن اور کک بیکس کی آلائشوں میں لپٹے ان کے میٹرو اور اورنج لائنز منصوبوں کی ستائش کرتے اور ان کی حکمرانی کا موازنہ شہنشاہ سوری اور اورنگ زیب عالمگیر کے طرز حکمرانی سے کرتے رہیں مگر عمرؓ کے دورِ خلافت کی یہ مثال ان پر کہیں لاگو نہ کریں کہ میرے عہد میں دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرے گا تو میں اس کا ذمہ دار ہو ں گا۔ اور ساغر صدیقی کا یہ آئینہ بھی اپنے ارباب اختیار کو دکھانے کی کبھی جرأت نہ کیجئے کہ

جس عہد میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

بھئی ہمارے عہد کے حکمران تو دوسروں کے معاملات نمٹانے کے کارخیر میں پوری یکسوئی کے ساتھ مصروف ہیں۔ آپ انہیں اپنے گھر کی تصویر دکھا کر ان کے ذہنوں میں کسی قسم کا خلل اور خلفشار پیدا نہ کریں۔ انہیں آپ سے نہیں اوباما کی ڈانٹ اور سعودی شہزادے عادل الخبیر کی ادائے بے نیازی سے ہی سروکار ہے سو ہم عوام راندۂ درگاہ ہیں اور ہر اندرونی بیرونی عذاب جھیل رہے تو کیا ہوا، ہمارے عادل حکمران اپنے امریکی سعودی آقائوں کو خوش رکھنے میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ اس لئے ہم عوام کو اپنے پاکستانی دل کے ساتھ اپنے حکمرانوں کی عوام کے معاملات میں بے نیازیوں سے نازل ہونے والے مزید عذابوں کو بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے اور کوئی ایسا ویسا شکوہ یا احتجاج کا کوئی لفظ زبان پر نہیں لانا چاہیے اور یہ سوچتے ہوئے مطمئن ہو کر بیٹھ جانا چاہیے کہ…؎ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا۔ وما علینا الا البلاغ۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com